وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انھیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا۔
آبائی گمراہی مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہیں ، بلادلیل و حجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک ، نہ نقصان کے ۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی ، نفسانی خواہشات سے ان کی محبت و عظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں ۔ شیطانی لشکر میں شامل ہو گئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہو گئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہو گا ۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں ۔ انجام کار مومنوں کے ہی ہاتھ رہے گا ۔ دنیا و آخرت میں ان کا پروردگار ان کی امداد کرے گا ۔ ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں ۔ سچے اللہ کی عداوت ان کے دل میں ڈال دیتا ہے ، شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے ۔ یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مومنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نافرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے ۔ لوگوں میں عام طور پر اعلان کر دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ ، اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضا مندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے ، اس کے سامنے صحیح راستہ نمایاں کر دوں ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے ، جو موت و فوت سے پاک ہے ، جو اول و آخر ، ظاہر و باطن اور ہر چیز کا عالم ہے ، جو دائم ، باقی ، سرمدی ، ابدی ، حی و قیوم ہے ، جو ہر چیز کا مالک ہے اور رب ہے ، اس کو اپنا ماویٰ و ملجا ٹھہرا لے ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ۔ ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے ۔ وہ کافی ہے ، وہی ناصر ہے ، وہی موید و مظفر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «یٰٓاَیٰھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) الخ ، ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے ، اسے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا ۔ آپ بےفکر رہیے ، اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچالے گا ۔ ‘ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { مدینے کی کسی گلی میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا : اے سلمان ! مجھے سجدہ نہ کر ۔ سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے ، جس پر کبھی موت نہیں ۔ [ ابن ابی حاتم ] اور اس کی تسبیح و حمد بیان کرتا رہ ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے : «سُبْحَانَکَ الّٰلہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ» } ۱؎ (صحیح بخاری:794) مراد اس سے یہ کہ عبادت اللہ ہی کی کر ، توکل صرف اسی کی ذات پر کر ۔ جیسے فرمان ہے : ’ مشرق و مغرب کا رب وہی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ ۔ ‘ ۱؎ (73-المزمل:9) اور جگہ ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبٰکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (11-ہود:123) ’ اسی کی عبادت کر ، اسی پر بھروسہ رکھ ۔ ‘ اور آیت میں ہے : اعلان کر دے کہ اسی رحمن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے ۔ اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں ۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ، کوئی پراسرار بات بھی اس سے مخفی نہیں ۔ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے ، مالک و قابض ہے ، وہی ہر جاندار کا روزی رساں ہے ، اس نے اپنی قدرت و عظمت سے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ پھر عرش پر قرار پکڑا ، کاموں کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے ۔ اس کا فیصلہ اعلی اور اچھا ہی ہوتا ہے ۔ جو ذات الٰہ کا عالم ہو اور صفات الٰہ سے آگاہ ہو ، اس سے اس کی شان دریافت کر لے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی پوری خبر رکھنے والے ، اس کی ذات سے پورے واقف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے ۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے ۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے ، وہ فرمودہ الٰہ ہی ہوتا تھا ۔ آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کیں ، سب برحق ہیں ، آپ نے جو خبریں دیں ، سب سچ ہیں ۔ سچے امام آپ ہی ہیں ، تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جا سکتا ہے ۔ جو آپ کی بات بتلائے ، وہ سچا ۔ جو آپ کے خلاف کہے ، وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو ۔ اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہو چکا ہے «فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدٰوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:59) ’ تم اگر کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ ۔ ‘ اور فرمان ہے «وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِن شَیْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللہِ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبِّی عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ۱؎ (42-الشوری:10) ’ تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو ، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ۔ ‘ اور فرمان ہے «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ» ۱؎ (6-الأنعام:115) ’ تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم و ممانعت میں عدل کی ہیں ، پوری ہوچکیں ۔ ‘ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے ۔ مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے ۔ ان سے جب رحمان کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے ۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمان ہے ۔ جیسے { حدیبیہ والے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا : «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھ ۔ تو مشرکین نے کہا : نہ ہم رحمان کو جانیں ، نہ رحیم کو ۔ ہمارے رواج کے مطابق «بِاسْمِکَ الّٰلہُمَّ» لکھ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2731-2732) اس کے جواب میں یہ آیت اتری «قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:110) ’ کہہ دے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو ، جس نام سے چاہو پکارو ۔ اس کے بہت سے بہترین نام ہیں ۔ ‘ وہی اللہ ہے ، وہی رحمن ہے ۔ پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں ؟ الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے ۔ برخلاف مومنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، جو رحمان و رحیم ہے ۔ اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لیے سجدے کرتے ہیں ۔ علماء رحمۃ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ الفرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ مشروع ہے ، جیسے کہ اس کی تفصیل موجود ہے «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔