وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو (١) ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ (٢) اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپا لے وہ گناہ گار دل والا ہے (٣) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے،
مسئلہ رہن، تحریر اور گواہی یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو ۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آ جائے لازم نہیں ہوتا ، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے ، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے ، جیسے مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ لیکن صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، شافعی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابوالشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لیے تھے ۔ (صحیح بخاری:2069) ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں ہیں ۔ «وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان» اس سے بعد کے جملے «فَإِنْ أَمِنَ» سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1202/3:) شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف نہ ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1203/3) جسے امانت دی جائے اسے خوف الٰہی رکھنا چاہیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا ۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے ، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دِل والا ہے جیسے اور جگہ ہے «وَلَا نَکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ» ( 5 ۔ المائدہ : 106 ) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے ، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً ہم گنہگاروں میں سے ہیں ، اور جگہ فرمایا «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلہِ وَلَوْ عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ إِن یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیرًا فَ اللہُ أَوْلَیٰ بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوَیٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا» ( 4-النساء : 135 ) ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو ، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دِل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔