سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کردینے والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دو قسم کے کافر یہ دو مثالیں ہیں اور دو قسم کے کافروں کی ہیں ۔ جیسے سورۃ البقرہ کی شروع میں دو مثالیں دو قسم کی منافقوں کی بیان ہوئی ہیں ۔ ایک آگ کی ایک پانی کی ۔ اور جیسے کہ سورۃ الرعد میں ہدایت وعلم کی جو انسان کے دل میں جگہ پکڑ جائے ۔ ایسی ہی دو مثالیں ایک آگ کی ایک پانی کی بیان ہوئی ہیں ۔ دونوں سورتوں میں ان آیتوں کی تفسیر کامل گزر چکی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» یہاں پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو کفر کی طرف دوسروں کو بھی بلاتے ہیں ، اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں ۔ ان کی تو ایسی مثال ہے جیسے کسی پیاسے کو جنگل میں دور سے ریت کا چمکتا ہوا تودہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے پانی کا موج دریا سمجھ بیٹھتا ہے ۔ «قِیعَۃُ» جمع ہے «قَاعٍ» کی جیسے «جَارٍ» کی جمع «جِیرَۃٍ» اور «قَاعُ» واحد بھی ہوتا ہے اور جمع «قِیعَانِ» ہوتی ہے جیسے «جَارٍ» کی جمع «جِیرَانٌ» ہے ۔ معنی اس کے چٹیل وسیع پھیلے ہوئے میدان کے ہیں ۔ ایسے ہی میدانوں میں سراب نظر آیا کرتے ہیں ۔ دوپہر کے وقت بالکل یہی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کا وسیع دریا لہریں لے رہا ہے ۔ جنگل میں جو پیاسا ہو ، پانی کی تلاش میں اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اسے پانی سمجھ کر جان توڑ کوشش کرکے وہاں تک پہنچتا ہے لیکن حیرت وحسرت سے اپنا منہ لپیٹ لیتا ہے ۔ دیکھتا ہے کہ وہاں پانی کا قطرہ چھوڑ نام و نشان بھی نہیں ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اعمال کئے ہیں ، بہت سی بھلائیاں جمع کر لی ہیں لیکن قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ایک نیکی بھی ان کے پاس نہیں یا تو ان کی بدنیتی سے وہ غارت ہو چکی ہے یا شرع کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے ۔ غرض ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ان کے کام جہنم رسید ہو چکے ہیں ، یہاں یہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ۔ حساب کے موقعہ پر اللہ خود موجود ہے اور ایک ایک عمل کا حساب لے رہا ہے اور کوئی عمل ان کا قابل ثواب نہیں نکلتا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ { یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر کی ۔ کہا جائے گا کہ جھوٹے ہو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ۔ اچھا بتاؤ اب کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آ رہا ہے ؟ تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اب انہیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے جس پر جاری پانی کا دھوکہ ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4581) یہ مثال تو تھی جہل مرکب والوں کی ۔ اب جہل بسیط والوں کی مثال سنئے جو کورے مقلد تھے ، اپنی گرہ کی عقل مطلق نہیں رکھتے تھے ۔ مندرجہ بالا مثال والے ائمہ کفر کی تقلید کرتے تھے اور آنکھیں بند کرکے ان کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ ان کی مثال گہرے سمندر کی تہہ کے اندھیروں جیسی ہے جسے اوپر سے تہہ بہ تہہ موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو اور پھر اوپر سے ابر ڈھانکے ہوئے ہوں ۔ یعنی اندھیرے پر اندھیرا ہو ۔ یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ۔ یہی حال ان سفلے جاہل کافروں کا ہے کہ نرے مقلد ہیں ۔ یہاں تک کہ جس کی تقلید کر رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے ؟ چنانچہ مثالاً کہا جاتا ہے کہ کسی جاہل سے پوچھا گیا کہاں جا رہا ہے ؟ اس نے کہا ان کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا کہ یہ کہاں جار ہے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔ پس جیسے اس سمندر پر موجیں اٹھ رہی ہیں ، اسی طرح کافر کے دل پر ، اس کے کانوں پر ، اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ «خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:7) ’ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے «اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰیہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:23) ، ’ تو نے انہیں دیکھا ؟ جنہوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے اور اللہ نے انہیں علم پر بہکا دیا ہے اور ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ‘ ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایسے لوگ پانچ اندھیروں میں ہوتے ہیں (١) کلام (٢) عمل (٣) جانا (٤) آنا (٥) اور انجام سب اندھیروں میں ہیں ۔ جسے اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت نہ کرے وہ نورانیت سے خالی رہ جاتا ہے ۔ جہالت میں مبتلا رہ کر ہلاکت میں پڑ جاتا ہے “ ۔ جیسے فرمایا آیت «مَنْ یٰضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:186) ’ جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لیے کوئی ہادی نہیں ہوتا ‘ ۔ یہ اس کے مقابل ہے جو مومنوں کی مثال کے بیان میں فرمایا تھا کہ «یَہْدِی اللہُ لِنُورِہِ مَنْ یَشَاءُ» ’ اللہ اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے جسے چاہے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ عظیم وکریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں نور پیدا کر دے اور ہمارے دائیں بائیں بھی نور عطا فرمائے اور ہمارے نور کو بڑھا دے اور اسے بہت بڑا اور زیادہ کرے ۔ آمین ۔