يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو (١) تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔
اکل حلال کی فضیلت اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کر لیں ، قول ، فعل ، دلالت ، نصیحت ، سب انہوں نے سمیٹ لی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے ۔ یہاں کوئی رنگت ، مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ» ( 2-البقرۃ : 172 ) حلال چیزیں کھاؤ ۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بُنّنے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟(صحیح بخاری:2262) اور حدیث میں ہے داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری:2072) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے ۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے ۔ (صحیح بخاری:1131) ام عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کر دیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی ۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا ، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے ۔ “انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں “ ، (طبرانی کبیر:174/25:ضعیف) اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو ! پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو ! جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہننا حرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب ، اے رب کہتا ہے ، لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے ۔ (صحیح مسلم:1015) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا ۔ اسی لیے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ پس مجھ سے ڈرو ۔ سورۃ انبیاء میں اس کی تفسیر وتشریح ہو چکی ہے آیت «وَإِنَّ ہٰذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبٰکُمْ فَاتَّقُونِ» ( المومنون آیت 52 ) پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے ۔ جن امتوں کی طرف انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کر دئے اور جس گمراہی پر اڑ گئے اسی پر نازاں وفرحاں ہو گئے اس لیے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے ۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا «فَمَہِّلِ الْکَافِرِینَ أَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا» ( 86-الطارق : 17 ) اور آیت «ذَرْہُمْ یَأْکُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْہِہِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ» ( 15-الحجر : 3 ) انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئیے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آ جائے ۔ کھانے پینے دیجئیے ، مست وبے خود ہونے دیجئیے ، ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ «وَقَالُوا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ» ( 34-سبأ : 35 ) کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بے شعور ہیں ۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ۔ «فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ» ( 9- التوبہ : 55 ) ، تجھے ان کے مال و اولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے ۔ اور آیت میں ہے «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مٰہِینٌ» ( 3-آل عمران : 178 ) یہ ڈھیل صرف اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں ۔ اور جگہ ہے ۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو ۔ اور آیتوں میں فرمایا ہے «ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا وَجَعَلْتُ لَہُ مَالًا مَّمْدُودًا وَبَنِینَ شُہُودًا وَمَہَّدتٰ لَہُ تَمْہِیدًا ثُمَّ یَطْمَعُ أَنْ أَزِیدَ کَلَّا إِنَّہُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیدًا» ( 74- المدثر : 16-11 ) ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں اور سب طرح کا سامان اس لیے مہیا کر دیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں وہ ہماری باتوں کا مخالف ہے اور آیت میں ہے ۔ «وَمَآ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ بالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰیِٕکَ لَہُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ» ( 34- سبأ : 37 ) ، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہو جائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے فکر نہ ہو جائیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی ، ظلم وغیرہ ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کر لے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے ۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا ۔ (مسند احمد:378/1:ضعیف)