سورة المؤمنون - آیت 26

قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نوح (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے رب ان کو جھٹلانے پر تو میری مدد کر (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آ گئے اور مایوس ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ «فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ» ( 54-القمر : 10 ) میرے پروردگار میں لاچار ہو گیا ہوں میری مدد فرما ۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الٰہی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی ۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کر چکی ہے جو ایمان نہیں لائے ۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا ۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا ۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہو جائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گا ۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لیے ہم نہیں دہراتے ۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پرسوار ہو جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ( 43-الزخرف : 12- 14 ) اللہ نے تمہاری سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنا دیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا «وَقَالَ ارْکَبُوا فِیہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ( 11-ہود : 41 ) آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا ۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور تو ہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں یعنی مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یقیناً رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کر لیتا ہے ۔