مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے (١) اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1047/3) اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کر کے دی جاتی ہیں ، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں ، ہتھیار خریدنے میں ، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1047/3) اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے ، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے ۔ روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے ، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے ۔ یہ حدیث سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ رضی اللہ عنہما سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے ، آپ رضی اللہ عنہما کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں ، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری ؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے ، آپ رضی اللہ عنہما کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا ، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری ، اس لیے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ، (مسند احمد:195/1:حسن) صحیح مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا ، (صحیح مسلم:1892) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کر دیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں ، سات سو تک ، مگر روزہ ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لیے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر و ثواب دوں گا ، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت ، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، (مسند احمد:446/1:صحیح بالشواھد) دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے ، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے ، (صحیح مسلم:1151) مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذِکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں ، (سنن ابوداود:2498 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے ، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی «وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ» ) 2 ۔ البقرہ : 261 ) یہ حدیث غریب ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2761 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما والی حدیث «مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً» ( 2 ۔ البقرہ : 245 ) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے ، (مسند احمد:296/2:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو «مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً» ( 2 ۔ البقرہ : 245 ) والی آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی دعا کی تو «اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ» ( 39 ۔ الزمر : 10 ) اتری ، (ابن حبان:4648:ضعیف) پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے ، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ ۔