سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا۔ ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے (١)۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ ’ یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کر رہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کر دیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے ‘ ۔ چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ «وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (8-الأنفال:32) ’ الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج ‘ ۔ کہتے تھے کہ «وَقَالُوا رَبّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطّنَا قَبْل یَوْم الْحِسَاب» ۱؎ (38-ص:16) ’ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کر دے ‘ ۔ اللہ فرماتا ہے «وَلَنْ یُخْلِف اللَّہ وَعْدہ» ۱؎ (22-الحج:47) ’ یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آ کر ہی رہیں گے ‘ ۔ اولیاء اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے ۔ اصمعی کہتے ہیں میں ابوعمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوعمرو ! کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ” نہیں “ ، اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے ؟ سن عرب میں «الْوَعْد» کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن «الْإِیعَاد» کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے ۔ «فَإِنِّی وَإِنْ أَوْعَدْتہ أَوْ وَعَدْتہ» «لَمُخْلِف إِیعَادِی وَمُنْجِز مَوْعِدِی» میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں ۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا ۔ الغرض سزا کا وعدہ کر کے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کر کے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لیے عجلت کیا ہے ؟ ‘ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے ، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہو جائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑ لے گا ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے ’ بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے ، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی ۔ جب مست ہو گئے تو اچانک گرفت کر لی ، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے ، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ‘ ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقراء مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2353،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اور روایت میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے ؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں ! تو یہی آیت «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللہُ وَعْدَہُ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰونَ» سنائی ۔ یعنی ’ اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہے ‘ } ۔ ابوداؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور مؤخر رکھے گا } ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا }۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4350،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللہُ وَعْدَہُ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰونَ» کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ ( ابن جریر ) بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب «الرد علی الجمیہ» میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت «یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:5) کے ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے ، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ‘ ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو ۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہو جائے ۔