وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا (١) جو اس کے فرمان سے اس زمین کی طرف چلتی ہے جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔
. حضرت ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا کی آواز میں تھا ۔ پس اتنی خوش آوازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا ۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد علیہ السلام کی آواز کیسی ہو گی ؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ ’ داؤد علیہ السلام کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں ‘ ۔ آپ علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں ۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:480/18:) جیسے اور آیت میں ہے کہ « وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ» (34-سبأ:11-10) ’ ہم نے داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم کر دیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں ‘ ۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں ۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکر گزاری کرنی چاہے ۔ «غُدُوٰہَا شَہْرٌ وَرَوَاحُہَا شَہْرٌ» ۱؎ (34-سبأ:12) ’ ہم نے زور آور ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی ، ہمیں ہرچیز کا علم ہے ‘ ۔ آپ علیہ السلام اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے ۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی ۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ علیہ السلام پر سایہ ڈالتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِی بِأَمْرِہِ رُخَاءً حَیْثُ أَصَابَ» ۱؎ (38-ص:36) ۔ یعنی ’ ہم نے ہوا کو ان کا تابع کر دیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی ۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کر لیتی ‘ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” چھ ہزار کرسی لگائی جاتی ۔ آپ علیہ السلام کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے ۔ پھر آپ علیہ السلام کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ علیہ السلام کو لے چلتی “ ۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” سلیمان علیہ السلام کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہو جاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ علیہ السلام کو بلندی پر لے جاتی آپ علیہ السلام اس وقت سرنیچا کر لیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ علیہ السلام کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کو اپنی فروتنی کا علم تھا ۔ پھر جہاں آپ علیہ السلام حکم دیتے وہیں ہوا آپ علیہ السلام کو اتار دیتی “ ۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے قبضے میں کر دیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے آیت «وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِینَ مُقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ» ۱؎ (38-ص:37-38) ، ’ ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کر دیا تھا جو معمار تھے اور غوطہٰ خور ‘ ۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ و نگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کر لیتے جسے چاہتے آزاد کر دیتے اسی کو فرمایا کہ ’ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے ‘ ۔