وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ
یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور (١) ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے (٢)۔
یہودی روایتوں سے بچو فرمان ہے کہ ’ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطا فرمائی تھی ۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی ‘ ۔ جیسے آیت میں ہے «وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاہَا إِبْرَاہِیمَ عَلَیٰ قَوْمِہِ» ۱؎ (6-الأنعام:83) ۔ ’ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کر سکیں ‘ ۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصا ً چاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا ، یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت ، وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے ۔ اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے ۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو ، موافقت ومخالفت کچھ نہ ہو ، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچا کر سکتے ہیں نہ غلط ۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لیے کچھ سند نہیں ، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع و نافع ، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی ۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا ، وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ، ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ’ ہم نے اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے ‘ ۔ بچپنے میں ہی آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا اور نہایت جرأت سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو ؟ اصبغ بن نباتہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے “ ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے ؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے ، باپ دادوں سے چلی آتی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ! واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ۔ ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہو جاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں ، تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہو گئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو ۔ اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی ، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے ، اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبرا گئے اور کہنے لگے ابراہیم [ علیہ السلام ] کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کر رہے ہو ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی ۔ آپ علیہ السلام کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ ” رب تو صرف خالق آسمان و زمین ہی ہے ، تمام چیزوں کا خالق و مالک وہی ہے ۔ تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی نہ خالق ہیں نہ مالک ۔ پھر معبود و مسجود کیسے ہو گئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق و مالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اس کے سوا کوئی رب نہ معبود “ ۔