لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کی چار مہینے کی مدت (١) ہے پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔
ایلاء اور اس کی وضاحت ایلاء کہتے ہیں قسم کو ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہو گی ، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے ، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی ، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے ، جیسے کہ بخاری صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:1910) اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دیدے ، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے ۔ یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ “ ایلاء “ خاص بیویوں کیلئے ہے ، لونڈیوں کیلئے نہیں ۔ یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے ، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں ، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں ، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:466/4) اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے ، یہی اس کا کفارہ ہے ، (سنن ابوداود:3274 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمان ہے کہ اگر چار مہینے گزر جانے کے بعد وہ طلاق دینے کا قصد کرے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہیں طلاق نہیں ہو گی ۔ جمہور متاخرین کا یہی مذہب ہے ، گو ایک دوسری جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ بلا جماع چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق ہو جائے گی ۔ سیدنا عمر ، عثمان ، علی ، ابن مسعود ، ابن عباس ، ابن عمر ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور بعض تابعین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے لیکن یاد رہے کہ راجح قول اور قرآن کریم کے الفاظ اور صحیح حدیث سے ثابت شدہ قول یہی ہے کہ طلاق واقع نہ ہو گی ( مترجم ) پھر بعض تو کہتے ہیں یہ طلاق رجعی ہو گئی ، بعض کہتے ہیں بائن ہو گی ، جو لوگ طلاق پڑنے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسے عدت بھی گزارنی پڑے گی ۔ ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوالشعثاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ان چار مہینوں میں اس عورت کو تین حیض آ گئے ہیں تو اس پر عدت بھی نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی قول یہی ہے لیکن جمہور متاخرین علماء کا فرمان یہی ہے کہ اس مدت کے گزرتے ہیں طلاق واقع نہ ہو گی بلکہ اب ایلاء کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی قسم کو توڑے یا طلاق دے ۔ موطا مالک میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے ۔ (صحیح بخاری:5290) صحیح بخاری میں بھی یہ روایت موجود ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ اپنی سند سے سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس سے اوپر صحابیوں سے سنا کہ وہ کہتے تھے چار ماہ کے بعد ایلاء کرنے والے کو کھڑا کیا گیا تو کم سے کم یہ تیرہ صحابی ہو گئے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی سیدنا عمر ، ابن عمر ، عثمان ، علی ، ابوالدراء ، ام المومنین عائشہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی یہی فرماتے ہیں اور تابعین میں سے حضرت سعید بن مسیّب ، عمر بن عبدالعزیز امام شافعی ، امام احمد رحمہ اللہ علیہم اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں کہ اگر چار ماہ کے بعد رجوع نہ کرے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے اگر طلاق نہ دے تو حاکم خود اس کی طرف سے طلاق دے دے گا مگر یہ طلاق رجعی ہو گی ، عدت کے اندر رجعت کا حق خاوند کو حاصل ہے ، ہاں صرف امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے رجعت جائز نہیں یہاں تک کہ عدت میں جماع کرے لیکن یہ قول نہایت ہی غریب ہے ۔ یہاں جو چار مہینے کی تاخیر کی اجازت دی ہے اس کی مناسبت میں موطا امام مالک میں عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا ایک واقعہ عموماً فقہاء کرام ذِکر کرتے ہیں ، جو یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے ۔ ایک رات کو نکلے تو آپ رضی اللہ عنہما نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے خاوند کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے «تطاول ہذا اللیل وازور جانبہ وأرقنی ألا ضجیع ألاعبہ ألاعبہ طورا وطورا کأنما بدا قمرا فی ظلمۃ اللیل حاجبہ یسر بہ من کان یلہو بقربہ لطیف الحشا لا یحتویہ أقاربہ فواللہ لولا اللہ لا شیء غیرہ لنقض من ہذا السریر جوانبہ ولکننی أخشی رقیبا موکلا ا بأنفسنا لا یفتر الدہر کاتبہ» جن کا ترجمہ یہ ہے ” افسوس ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا خاوند نہیں ہے جس سے میں ہنسوں ، بولوں ۔ قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے ۔ “ آپ اپنی صاحبزادی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے خاوند کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے ؟ فرمایا چھ مہینے یا چار مہینے ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اب میں حکم جاری کر دوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹھہریں ۔ بعض روایتوں میں کچھ زیادتی بھی ہے اور اس کی بہت سی سندیں ہیں اور یہ واقعہ مشہور ہے ۔