قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا
اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ (١)۔
باپ کی ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس طرح سمجھانے پر ان کے باپ نے جو جہالت کا جواب دیا ، وہ بیان ہو رہا ہے کہ ” اس نے کہا ابراہیم [ علیہ السلام ] تو میرے معبودوں سے بیزار ہے ، ان کی عبادت سے تجھے انکار ہے ، اچھا سن رکھ ، اگر تو اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا اور انہیں برا کہتا رہا اور ان کی عیب جوئی اور انہیں گالیاں دینے سے نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا ۔ مجھے تو تکلیف نہ دے ، نہ مجھ سے کچھ کہہ ۔ یہی بہتر ہے کہ تو سلامتی کے ساتھ مجھ سے الگ ہو جائے ورنہ میں تجھے سزا دوں گا ۔ مجھ سے تو تو اب ہمیشہ کے لیے گیا گزرا “ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، ” اچھا خوش رہو ، میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی کیونکہ آپ میرے والد ہیں بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو نیک توفیق دے اور آپ کے گناہ بخشے “ ۔ مومنوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ جاہلوں سے بھڑتے نہیں ، جیسے کہ قرآن میں ہے «وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا» ۱؎ (25-الفرقان:63) ’ جاہلوں سے جب ان کا خطاب ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْہُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاہِلِینَ» ۱؎ (28-القصص:55) ’ لغو باتوں سے وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ، تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ، تم پر سلام ہو ۔ ہم جاہلوں کے درپے نہیں ہوتے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ” میرا رب میرے ساتھ بہت مہربان ہے ، اسی کی مہربانی ہے کہ مجھے ایمان و اخلاص کی ہدایت کی ۔ مجھے اس سے اپنی دعا کی قبولیت کی امید ہے “ ۔ اسی وعدے کے مطابق آپ ان کے لیے بخشش طلب کرتے رہے ۔ شام کی ہجرت کے بعد بھی ، مسجد الحرام بنانے کے بعد بھی ، آپ کے ہاں اولاد ہو جانے کے بعد بھی آپ کہتے رہے کہ ” اے اللہ مجھے ، میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو حساب کے قائم ہونے کے دن بخش دے “ ۔ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرو ۔ آپ علیہ السلام ہی کی اقتداء میں پہلے پہل مسلمان بھی ابتداء اسلام کے زمانے میں اپنے قرابت دار مشرکوں کے لیے طلب بخشش کی دعائیں کرتے رہے ۔ آخر آیت نازل ہوئی کہ بیشک ابراہیم علیہ السلام قابل اتباع ہیں لیکن اس بات میں ان کا فعل اس قابل نہیں ۔ اور آیت میں فرمایا « مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ» الخ ۱؎ (9-التوبۃ:114،113) ، یعنی ’ نبی کو اور ایمانداروں کو مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنا چاہیئے ‘ الخ ۔ ’ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ استغفار صرف اس بناء پر تھا کہ آپ علیہ السلام اپنے والد سے اس کا وعدہ کر چکے تھے لیکن جب آپ علیہ السلام پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ علیہ السلام اس سے بری ہو گئے ۔ ابراہیم علیہ السلام تو بڑے ہی اللہ دوست اور علم والے تھے ‘ ۔ پھر فرماتے ہیں کہ ” میں تم سب سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے الگ ہوں ۔ میں صرف اللہ واحد کا عابد ہوں ، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا ، میں فقط اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی دعاؤں میں محروم نہ رہوں گا “ ۔ واقعہ بھی یہی ہے اور یہاں پر لفظ «عَسٰی» یقین کے معنوں میں ہے اس لیے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید الانبیاء ہیں [ علیہ السلام ] ۔