قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (١) (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، (٢) تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت (٣) میں کسی کو شریک نہ کرے۔
سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ، تم بھی انسان ہو ، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں ، تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ، اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں ۔ اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گزشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں ، تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ ۔ شرک کو چھوڑ دو ۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجر و ثواب لینا چاہتا ہو ، اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیئے ۔ ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو ۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الٰہی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لیے کیا حکم ہے ، آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23427:مرسل) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز ، روزہ ، صدقہ ، خیرات ، حج زکوٰۃ کرتا ہے ، اللہ کی رضا مندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے ، اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے ، جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:40/16:ضعیف) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ، رات گزارتے ، کبھی آپ کو کوئی کام ہوتا تو فرما دیتے ۔ ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ۔ ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا ، یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابن ماجہ:4204،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نے فرمایا ، میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لیے نماز پڑھے ۔ مسند احمد میں ہے ، ابن غنم کہتے ہیں ، میں اور ابودرداء جابیہ کی مسجد میں گئے ، وہاں ہمیں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے ، بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے ابودرداء رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ، دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرو منزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہما آ گئے اور بیٹھتے ہی شداد رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، لوگو مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا ۔ اس پر عبادہ رضی اللہ عنہما اور ابودرداء رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اللہ معاف فرمائے ، ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ حضرت شداد رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لیے نماز ، روزہ ، صدقہ ، خیرات کرتا ہے ۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا ، بیشک ایسا شخص مشرک ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لیے نماز پڑھے وہ مشرک ہے ، جو دنیا کو دکھانے کے لیے روزے رکھے وہ مشرک ہے ، جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لیے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے ۔ اس پر عوف بن مالک رضی اللہ عنہما نے کہا ، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لیے ہو ، اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لیے ہو ، اسے رد کر دے ؟ شداد رضی اللہ عنہما نے جواب دیا ، یہ ہرگز نہیں ہونے کا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں ، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کو شریک کرے ، میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کر دیتا ہوں ۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ (مسند احمد:125/4:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہما ایک دن رونے لگے ، ہم نے پوچھا ، آپ کیسے رو رہے ہیں ؟ فرمانے لگے ایک حدیث یاد آ گئی اور اس نے رلا دیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں سنو وہ سورج چاند ، پتھر ، بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی ۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی ، روزہ چھوڑ دیا (مسند احمد:124/4:ضعیف) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں ۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو شریک کرے ، میں اپنا حصہ بھی اسی کو دے دیتا ہوں ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2764،صحیح) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عمل میں میرے ساتھ دوسرے کو ملا لے ، میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لیے ہی ہے ۔ (مسند احمد:301/2:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے ، مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا ، وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری ۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لیے عمل کئے تھے ، انہی کے پاس جزا مانگو ۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟(مسند احمد:428/5:صحیح) ابوسعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا ، جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں ، اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہو ، اسے چاہیئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے ۔ (مسند احمد:466/3:حسن) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہو گا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہو گا ( مسند احمد 45/5:صحیح لغیرہ) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ (مسند احمد:40/3:صحیح) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، اپنے نیک اعمال اچھالنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا ، اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر و ذلیل ہو گا ۔ یہ بیان فرما کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما رونے لگے ۔(مسند احمد:162/2:صحیح) انس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا ، اسے پھینک دو ، اسے قبول کرو ، اسے قبول کرو ، اسے پھینک دو ۔ اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں ، جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضا مندی مطلوب نہ تھی بلکہ ان میں ریاکاری تھی ۔ آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لیے ہی کئے گئے ہوں ۔(الدر المنثور للسیوطی:460/4:ضعیف) ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لیے کھڑا ہوا ہو ، وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں ہی رہتا ہے ۔ (مجمع الزوائد:223/10:ضعیف) ابو یعلیٰ کی حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بے دلی سے ادا کرے ، اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی ۔ (مسند ابویعلیٰ:5117:ضعیف) پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہما قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں ۔ (ضعیف) لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ الکہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدلا نہیں گیا ۔ اس کے بعد کوئی ایسی آیت نہیں اتری جو اس میں تبدیلی وتغیر کرے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابوبکر بزار رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت «فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا» ( الکھف : 110 ) ، کو رات کے وقت پڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے ۔ (مستدرک حاکم371/2:ضعیف)