سورة البقرة - آیت 200

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ (١) بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو ، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھا وہ لوگوں کے کام کاج کر دیا کرتا تھا سخاوت وشجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو ، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو ، اسی لیے او اشد پر زبر تمیز کی بنا پر لائی گئی ہے ، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے ۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے «او اشد قسوۃ» (2-البقرۃ:74) میں اور «او اشد خشیۃ» (4-النساء:77) میں اور «او یزیدون» (37-الصافات:147) میں اور «او ادنیٰ» (53-النجم:9) میں ، ان تمام مقامات میں لفظ «” أَوْ “ » ہرگز ہرگز شک کے لیے نہیں ہے بلکہ «” فجر عنہ “» کی تحقیق کے لیے ہے ، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے ، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہٰ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لیے ان کی تعریفیں کی گئیں ، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کر دی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے ، اس لیے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت ، راحت ، آسانی ، تندرستی ، گھربار ، بیوی بچے ، روزی ، علم ، عمل ، اچھی سواریاں ، نوکر چاکر ، لونڈی ، غلام ، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آ گئیں اور آخرت کی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آ گیا ، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلاً حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ ، قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:542/2) بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:4522) اس حدیث میں ہے ” ربنا “ سے پہلے ” اللہم “ بھی ہے ، قتادہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہی دعا بتائی (مسند احمد:101/3:صحیح) سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے ، چنانچہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لیے دعا کریں آپ نے یہی دعا «اللہم رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آ گئیں ( ابن ابی حاتم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا «رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» کیوں نہ پڑھی ؟ چنانچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفاء دے دی ۔ (مسند احمد:107/3:صحیح) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ (سنن ابوداود:1892 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے گزرو تو دعا آیت «رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» پڑھا کرو ۔ (میزان الاعتدال:4602:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے آ کر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کر لی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کر لیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کر لوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہو جائے گا آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت «أُولٰئِکَ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّمَّا کَسَبُوا وَ اللہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ( البقرہ : 202 )(مستدرک حاکم:277/2)