ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے (١) یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے (٢)
حکمت سے مراد کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں ‘ ۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر رحمہ اللہ ” کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ، اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں “ ۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:46) الخ ، ’ اہل کتاب سے مناظرے مجادلے کا بہترین طریقہ ہی برتا کرو ‘ ، الخ ۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا ۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا کہ «فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی» ۱؎ (20-طہ:44) ’ اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے ‘ ۔ گمراہ اور ہدایت یاب سب اللہ کے علم میں ہیں ۔ شقی و سعید سب اس پر واضح ہیں ۔ وہاں لکھے جا چکے ہیں اور تمام کاموں کے انجام سے فراغت ہو چکی ہے ۔ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہیں لیکن نہ ماننے والوں کے پیچھے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔ آپ ہدایت کے ذمے دار نہیں آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں ، آپ پر پیغام کا پہنچا دینا فرض ہے ۔ حساب ہم آپ لیں گے ۔ «إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ» ۱؎ (28-القصص:56) ہدایت آپ کے بس کی چیز نہیں کہ جسے محبوب سمجھیں ، ہدایت عطا کر دیں لوگوں کی ہدایت کے ذمے دار آپ نہیں یہ اللہ کے قبضے اور اس کے ہاتھ کی چیز ہے ‘ ۔