وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے (١) اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے (٢)۔
سب سے زیادہ منزلت و رفعت والا کلام کافروں کی ایک بہتان بازی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسے یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے ۔ قریش کے کسی قبیلے کا ایک عجمی غلام تھا ، صفا پہاڑی کے پاس خرید و فروخت کیا کرتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اس کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے اور کچھ باتیں کر لیا کرتے تھے ، یہ شخص صحیح عربی زبان بولنے پر بھی قادر نہ تھا ۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بمشکل اپنا مطلب ادا کر لیا کرتا تھا ۔ اس افترا کا جواب جناب باری دیتا ہے کہ ’ وہ کیا سکھائے گا جو خود بولنا نہیں جانتا ‘ ، عجمی زبان کا آدمی ہے اور یہ قرآن تو عربی زبان میں ہے ، پھر فصاحت و بلاغت والا ، کمال و سلاست والا ، عمدہ اور اعلیٰ پاکیزہ اور بالا ۔ معنی ، مطلب ، الفاظ ، واقعات ہیں ۔ سب سے نرالا بنی اسرائیل کی آسمانی کتابوں سے بھی زیادہ منزلت اور رفعت والا ۔ وقعت اور عزت والا ۔ تم میں اگر ذرا سی عقل ہوتی تو یوں ہتھیلی پر چراغ رکھ کر چوری کرنے کو نہ نکلتے ، ایسا جھوٹ نہ بکتے ، جو بیوقوفوں کے ہاں بھی نہ چل سکے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نصرانی غلام جسے جبر کہا جاتا تھا جو بنو حضرمی قبیلے کے کسی شخص کا غلام تھا ، اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے ، اس پر مشرکین نے یہ بے پر کی اڑائی کہ یہ قرآن اسی کا سکھایا ہوا ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ۔ کہتے ہیں کہ اس کا نام یعیش تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ” مکہ شریف میں ایک لوہار تھا جس کا نام بلعام تھا ۔ یہ عجمی شخص تھا ، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے پاس آنا جانا دیکھ کر قریش مشہور کرنے لگے کہ یہی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ سکھاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کلام اللہ کے نام سے اپنے حلقے میں سکھاتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21933:ضعیف) کسی نے کہا ہے مراد اس سے سلمان فارسی ہیں رضی اللہ عنہ ۔ لیکن یہ قول تو نہایت بودا ہے کیونکہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ آیت مکے میں اتری ہے ۔ عبیداللہ بن مسلم کہتے ہیں ہمارے دو مقامی آدمی روم کے رہنے والے تھے جو اپنی زبان میں اپنی کتاب پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاتے آتے کبھی ان کے پاس کھڑے ہو کر سن لیا کرتے ، اس پر مشرکین نے اڑایا کہ انہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سیکھتے ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21940:) سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرکین میں سے ایک شخص تھا جو وحی لکھا کرتا تھا ، اس کے بعد وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور یہ بات گھڑلی ۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر ۔