وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اللہ تعالیٰ ہی نے تم سے ایک کو دوسرے پر روزی میں زیادتی دے رکھی ہے، پس جنہیں زیادتی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے ما تحت غلاموں کو نہیں دیتے کہ وہ اور یہ اس میں برابر ہوجائیں (١) تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہو رہے ہیں۔
مشرکین کی جہالت کا ایک انداز مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کرتے تھے «[ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ ، إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ]» یعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1185) پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھہرا رہے ہو ؟ ‘ یہی مضمون آیت «ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ» (30-الروم:28) ، میں بیان ہوا ہے ، کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنانے سے نفرت کرتے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ ‘ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لیے وہ پسند کرنا ، جو اپنے لیے بھی پسند نہ ہو ۔ یہ ہے مثال معبودان باطل کی ۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بیزار ہے ۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہوگا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الٰہی ادا کرتے ہیں اور جو حقوق دوسروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کرتے ہیں ۔