وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات (١) ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر (چھتے) بنا۔
وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی سے مراد یہاں پر الہام ، ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے ۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئیے کتنا مضبوط کیسا خوبصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے ۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لیے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں ، پھولوں اور گھاس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے ، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو ، چاہے بیابان کے درخت ہوں ، چاہے آبادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں ، یہ نہ راستہ بھولے ، نہ بھٹکتی پھرے ، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے ۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں ، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے ۔ اپنے پروں سے موم بنائے ۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے ۔ «ذُلُلًا» کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا «سالکۃ» کا ، جیسے قرآن میں آیت «وَذَلَّــلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْکُلُوْنَ» ۱؎ (36-یس:72) میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے ۔ ابن اجریر رحمہ اللہ دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے ۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:4231:) شہد کے رنگ مختلف ہوتے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین ۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفاء بھی ہے ، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں «فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ» نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا ’ اس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے ‘ ۔ پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے ۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے ۔ مجاہد اور ابن جریر رحمہ اللہ علیہم سے منقول ہے کہ ” اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفاء ہے “ ۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفاء ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں ۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے ، اسی لیے مجاہد رحمہ اللہ کے اس قول کی اقتداء نہیں کی گئی ۔ ہاں قرآن کے شفاء ہونے کا ذکر آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَا» ۱؎ (17-الإسراء:82) ، میں ہے اور آیت «وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصٰدُوْرِ ڏ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (10-یونس:57) میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے ۔ چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ { کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے شہد پلاؤ } ، وہ گیا ، شہد دیا ، پھر آیا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اور شہد پلاؤ } ۔ اس نے جا کر پھر پلایا ، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جا پھر شہد دے } ۔ تیسری مرتبہ شہد سے بفضل الٰہی شفاء حاصل ہوگئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5684) بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو ، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی ۔ فضلہ خارج ہونا شروع ہوا ۔ دست بڑھ گئے ۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہونا شروع ہوا پھر شہد دیا ، پیٹ صاف ہوگیا ، بلا نکل گئی اور کامل شفاء بفضل الٰہی حاصل ہو گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جو بہ اشارہ الٰہی پوری ہوگئی ۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5431) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { تین چیزوں میں شفاء ہے ، پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5681) بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ { تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفاء ہے تو پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوا نے میں جو بیماری کے مناسب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5683) مسلم کی حدیث میں ہے { میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ ناپسند رکھتا ہوں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:146/4:صحیح) ابن ماجہ میں ہے { تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کرتے رہو شہد اور قرآن } ۔ (سنن ابن ماجہ:3452،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” جب تم میں سے کوئی شفاء چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھو لے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضا مندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفاء آ جائے گی “ ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (17-الإسراء:82) یعنی ’ ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفاء ہے اور رحمت ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مٰبٰرَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ» ۱؎ (50-ق:9) ’ ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «وَاٰتُوا النِّسَاءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْــــــًٔـا مَّرِیْـــــــًٔـا» ۱؎ (4-النساء:4) یعنی ’ اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بیشک تم اسے کھاؤ پیو مزے سے ‘ ۔ شہد کے بارے میں فرمان الٰہی ہے «فِیہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ» ’ شہد میں لوگوں کے لیے شفاء ہے ‘ ۔ ابن ماجہ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3450،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے ۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { «عَلَیْکُمْ بِالسَّنَا وَالسَّنُوتِ فَإِنَّ فِیہِمَا شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ إِلا السَّامَ» تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفاء ہے سوائے سام کے } ۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا : { موت } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3457،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «سَّنُوتِ» کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو ۔ شاعر کے شعر میں «ہُمُ السَّمْنُ بِالسَّنٰوتِ لَا أَلْسَ فِیہِمْ وَہُمْ یَمْنَعُونَ الْجَارَ أَنْ یُقَرَّدَا» یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ مکھی جیسی بے طاقت چیز کا تمہارے لیے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور و فکر کرنے والوں کے لیے میری عظمت ، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں ‘ ۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہونے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔