قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ
میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی اور محبت (١)۔
احسان اور احسن سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور مخلوق رب سے احسان وسلوک کرنے کا حکم دے رہا ہے فرماتا ہے کہ ’ نماز برابر پڑھتے رہیں جو اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت ہے اور زکوٰۃ ضرور دیتے رہیں قرابت داروں کو بھی اور انجان لوگوں کو بھی ‘ ۔ اقامت سے مراد وقت کی ، حد کی ، رکوع کی ، خشوع کی ، سجدے کی حفاظت کرنا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی اس کی راہ میں پوشیدہ اور کھلے طور پر اس کی خوشنودی کے لیے اوروں کو بھی دینی چاہیئے تاکہ اس دن نجات ملے جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی نہ کوئی دوستی آشنائی ہو گی ۔ کوئی اپنے آپ کو بطور فدیے کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ناممکن ۔ جیسے فرمان ہے «فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مَاْوٰیکُمُ النَّارُ ہِیَ مَوْلٰیکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (57-الحدید:15) یعنی ’ آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ اور بدلہ نہ لیا جائے گا ۔ وہاں کسی کی دوستی کی وجہ سے کوئی چھوٹے گا نہیں بلکہ وہاں عدل و انصاف ہی ہوگا ‘ ۔ «خِلَالٌ» مصدر ہے ، امراء لقیس کے شعر میں بھی یہ لفظ ہے ؎ «صَرَفْتُ الْہَوَی عَنْہُنَّ مِنْ خَشْیَۃِ الرَّدَی وَلَسْتُ بِمُقْلِیِّ الْخِلَالِ وَلَا قَالٍ» ۔ دنیا میں لین دین ، محبت دوستی کام آ جاتی ہے لیکن وہاں یہ چیز اگر اللہ کے لیے نہ ہو تو محض بےسود رہے گی ۔ کوئی سودا گری ، کوئی شناسا وہاں کام نہ آئے گا ۔ زمین بھر کر سونا فدیے میں دینا چاہے لیکن رد ہے کسی کی دوستی کسی کی سفارش کافر کو کام نہ دے گی ۔ فرمان الٰہی ہے آیت «وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:48) ’ اس دن کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، جس دن کوئی کسی کو کچھ کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کسی کو کسی کی شفاعت نفع دے گی نہ کوئی کسی کی مدد کر سکے گا ‘ ۔ فرمان ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:254) ’ ایمان دارو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے ، تم اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ بیوپار ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔ کافر ہی دراصل ظالم ہیں ‘ ۔