وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ
سب کے سب اللہ کے سامنے ربرو کھڑے ہونگے (١) اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہیں ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (٢)
چٹیل میدان اور مخلوقات صاف چٹیل میدان میں ساری مخلوق نیک و بد اللہ کے سامنے موجود ہو گی ۔ اس وقت جو لوگ ماتحت تھے ان سے کہیں گے جو سردار اور بڑے تھے ۔ اور جو انہیں اللہ کی عبادت اور رسول علیہم السلام کی اطاعت سے روکتے تھے ، کہ ہم تمہارے تابع فرمان تھے جو حکم تم دیتے تھے ہم بجا لاتے تھے ۔ جو تم فرماتے تھے ہم مانتے تھے ۔ پس جیسے کہ تم ہم سے وعدے کرتے تھے اور ہمیں تمنائیں دلاتے تھے کیا آج اللہ کے عذابوں کو ہم سے ہٹاؤ گے ؟ اس وقت یہ پیشوا اور سردار کہیں گے کہ ہم تو خود راہ راست پر نہ تھے تمہاری رہبری کیسے کرتے ؟ ہم پر اللہ کا کلمہ سبقت کرگیا ، عذاب کے مستحق ہم سب ہو گئے اب نہ ہائے وائے اور نہ بے قراری نفع دے اور نہ صبر و برداشت ۔ عذاب کے بچاؤ کی تمام صورتیں ناپید ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں کہ دوزخی لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان اللہ کے سامنے روتے دھوتے تھے اس وجہ سے وہ جنت میں پہنچے ، آؤ ہم بھی اللہ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں ۔ خوب روئیں پیٹیں گے ، چیخیں چلائیں گے لیکن بےسود رہے گا تو کہیں گے جنتیوں کے جنت میں جانے کی ایک وجہ صبر کرنا تھی ۔ آؤ ہم بھی خاموش اور صبر اختیار کریں اب ایسا صبر کریں گے کہ ایسا صبر کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن یہ بھی لا حاصل رہے گا اس وقت کہیں گے ہائے صبر بھی بےسود اور بے قراری بھی بے نفع ۔ ظاہر تو یہ ہے کہ پیشواؤں اور تابعداروں کی یہ بات چیت جہنم میں جانے کے بعد ہو گی ۔ جیسے آیت «وَإِذْ یَتَحَاجٰونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضٰعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَہَلْ أَنتُم مٰغْنُونَ عَنَّا نَصِیبًا مِّنَ النَّارِقَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُلٌّ فِیہَا إِنَّ اللہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ» ۱؎ (40-غافر:48 ، 47) ، ’ جب کہ وہ جہنم میں جھگڑیں گے اس وقت ضعیف لوگ تکبر والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے ماتحت تھے تو کیا آگ کے کسی حصہ سے تم ہمیں نجات دلا سکو گے ؟ وہ متکبر لوگ کہیں گے ہم تو سب جہنم میں موجود ہیں اللہ کے فیصلے بندوں میں ہو چکے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قَالَ ادْخُلُوا فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ کُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّۃٌ لَّعَنَتْ أُخْتَہَا حَتَّیٰ إِذَا ادَّارَکُوا فِیہَا جَمِیعًا قَالَتْ أُخْرَاہُمْ لِأُولَاہُمْ رَبَّنَا ہٰؤُلَاءِ أَضَلٰونَا فَآتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلٰکِن لَّا تَعْلَمُونَ وَقَالَتْ أُولَاہُمْ لِأُخْرَاہُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:39 ، 38) ’ فرمائے گا کہ جاؤ ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو انسان جنات تم سے پہلے جہنم میں پہنچ چکے ہیں جو گروہ جائے گا وہ دوسرے کو لعنت کرتا جائے گا ۔ جب سب کے سب جمع ہو جائیں گے تو پچھلے پہلوں کی نسبت جناب باری میں عرض کریں گے کہ پروردگار ان لوگوں نے ہمیں تو بہکا دیا ۔ انہیں دوہرا عذاب کر ۔ جواب ملے گا کہ ہر ایک کو دوہرا ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔ اور اگلے پچھلوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر فضیلت نہیں تھی اپنے کئے ہوئے کاموں کے بدلے کا عذاب چکھو ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ وہ کہیں گے «وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا رَبَّنَا آتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:68،67) الخ ، ’ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے پیشواؤں اور بڑوں کی اطاعت کی جنہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا اے ہمارے پالنہار تو انہیں دوہرا عذاب کر اور بڑی لعنت کر ‘ ۔ یہ لوگ محشر میں بھی جھگڑیں گے فرمان ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَن نٰؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (34-سبأ:33-31) ’ کاش کہ تو دیکھتا جب کہ ظالم لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہوں گے تابعدار لوگ اپنے بڑوں سے کہتے ہوں گے کہ کیا ہدایت آ جانے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روک دیا ؟ نہیں بلکہ تم تو آپ گنہگار بدکار تھے ۔ یہ کمزور لوگ پھر ان زور اوروں سے کہیں گے کہ تمہارے رات دن کے داؤ گھات اور ہمیں یہ حکم دینا کہ ہم اللہ سے کفر کریں اس کے شریک ٹھرائیں اب سب لوگ پوشیدہ طور پر اپنی اپنی جگہ نادم ہو جائیں گے جب کہ عذابوں کو سامنے دیکھ لیں گے ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا ‘ ۔