وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (١)
اولاد کا قاتل فرمان الٰہی کے مطابق موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں ، مثلاً قوم فرعون سے انہیں نجات دلوانا جو انہیں بے وقعت کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے یہاں تک کہ تمام نرینہ اولاد قتل کر ڈالتے تھے صرف لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ یہ نعمت اتنی بڑی ہے کہ تم اس کی شکر گزاری کی طاقت نہیں رکھتے ۔ یہ مطلب بھی اس جملے کا ہو سکتا ہے کہ فرعونی ایذاء دراصل تمہاری ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جیسے فرمان ہے «وَبَلَوْنٰہُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:168) یعنی ’ ہم نے انہیں بھلائی برائی سے آزما لیا کہ وہ لوٹ آئیں ، جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگاہ کر دیا ‘ ۔ اور یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ ’ جب اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اپنی عزت و جلالت اور کبریائی کی ‘ ۔ جیسے «وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبٰکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ» ۱؎ (7-الأعراف:167) ، میں ۔ پس اللہ کا حتمی وعدہ ہوا اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور ناشکروں کی نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں اور چھن جائیں گی اور انہیں سخت سزا ہو گی ۔ حدیث میں ہے { بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے } ۔(سنن ابن ماجہ:4022،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک کھجور دی ۔ وہ بڑا بگڑا اور کھجور نہ لی ۔ پھر دوسرا سائل گزرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی وہی کھجور دی اس نے اسے بخوشی لے لیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عطیہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیس درہم دینے کا حکم فرمایا } ۔ اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے فرمایا : { اسے لے جاؤ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چالیس درہم ہیں وہ اسے دلوا دو } } ۔ (مسند احمد:155/3:ضعیف) موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ” تم سب اور روئے زمین کی تمام مخلوق بھی ناشکری کرنے لگے تو اللہ کا کیا بگاڑے گا ؟ وہ بندوں سے اور ان کی شکر گزاری سے بے نیاز اور بےپرواہ ہے ۔ تعریفوں کا مالک اور قابل وہی ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے «اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِـیْمٌ بِذَات الصٰدُوْرِ» ۱؎ (39-الزمر:7) ’ تم اگر کفر کرو تو اللہ تم سے غنی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «کَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ انہوں نے کفر کیا منہ موڑ لیا تو اللہ نے ان سے مطلقاً بے نیازی برتی ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں حدیثِ قدسی ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے میرے بندو اگر تمہارے اول آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقوے والے دل کے شخص جیسے بن جائیں تو اس سے میرا ملک ذرا سا بھی بڑھ نہ جائے گا اور اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بدترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ بھی نہ گھٹے گا ‘ ۔ ’ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو ‘ } ۔ (صحیح مسلم:2577) پس ہمارا رب پاک ہے بلند ہے غنی ہے اور حمید ہے ۔