وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا (١) کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے (٢) ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے (٣)
ہر کام کا وقت مقرر ہے ارشاد ہے کہ ’ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں ۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ، کھانا کھاتے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی ، بچوں والے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئیے کہ «قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ» ۱؎ (18-الکہف:110) ’ میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الٰہی کی جاتی ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5063) مسند احمد میں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ چار چیزیں تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ رہیں خوشبو لگانا ، نکاح کرنا ، مسواک کرنا اور مہندی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1080،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی علیہ السلام کے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے ‘ ۔ «أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذٰلِکَ فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (22-الحج:70) ’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا اللہ کو علم ہے سب کچھ کتاب میں لکھا موجود ہے یہ تو اللہ پر بہت ہی آسان ہے ‘ ۔ ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ۔ پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہو گئیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا ۔ سوائے شقاوت ، سعادت ، حیات و ممات کے ، کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا ۔ منصور کہتے ہیں ” میں نے مجاہد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الٰہی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” یہ تو اچھی دعا ہے “ ، سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی آپ رحمہ اللہ نے «إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مٰبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِیہَا یُفْرَقُ کُلٰ أَمْرٍ حَکِیمٍ» ۱؎ (44-الدخان:3،4) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا ” لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں ، تکلیفیں مقرر ہو جاتی ہیں ۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم مؤخر کرتا ہے ، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی “ ۔ شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ” اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے “ ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے « اللہُمَّ إِنْ کُنْت کَتَبْت عَلَیَّ شِقْوَۃ أَوْ ذَنْبًا فَامْحُہُ فَإِنَّک تَمْحُو مَا تَشَاء وَتُثْبِت وَعِنْدک أُمّ الْکِتَاب فَاجْعَلْہُ سَعَادَۃ وَمَغْفِرَۃ» ” اے اللہ اگر تو نے مجھ پر برائی اور گناہ لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹا دے تو جسے چاہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے ام الکتاب تیرے پاس ہی ہے تو اسے سعادت اور رحمت کر دے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی دعا کیا کرتے تھے ۔ کعب رحمہ اللہ نے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ” اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ رضی اللہ عنہ کو بتا دیتا ۔ پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:401/7:ضعیف و کذب) ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔ چنانچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں } ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4022:قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5986) اور حدیث میں ہے کہ { دعا اور قضاء دونوں کی مڈبھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:486) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان ۔ تریسٹھ بار اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرماتا ہے ۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ام الکتاب اسی کے پاس ہے “ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:2502:ضعیف) کلبی فرماتے ہیں ” روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے “ ، ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟ فرمایا ” ابوصالح نے ان سے جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ ” جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا ، میں نے پیا ، میں آیا ، میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20487:ضعیف) فرماتے ہیں ” مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہو جاتی ہے اور جس کے لیے ثابت رہتی ہے “ ۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے ، اس کے لیے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الٰہی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لیے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الٰہی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لیے ثابت رہتی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے “ ، اور آیت میں ہے «فَیَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:284) ’ وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی “ ۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ یہ آیت مثل آیت «مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:106) ، کے ہے یعنی ’ جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ ’ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا ‘ تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے بس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہو چکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لیے یہ آیت اتری کہ ’ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ‘ ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس کی اجل آ جائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کر لے “ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العٰلمین کے پاس ہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ سے ام الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ” اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا “ ۔ پھر کہا کہ ” کتاب کی صورت میں ہو جائے ہو گیا “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ام الکتاب سے مراد ذکر ہے “ ۔