لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ
ان کے لئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے (١) اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے (٢) انھیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں۔
کافر موت مانگیں گے کفار کی سزا اور نیک کاروں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کافروں کا کفر و شرک بیان فرما کر ان کی سزا بیان فرمائی کہ ’ وہ مومنوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوں گے ، اس کے ساتھ ہی آخرت کے سخت تر عذابوں میں گرفتار ہوں گے جو اس دنیا کی سزا سے درجہا بدتر ہیں ‘ ۔ { ملا عنہ کرنے والے میاں بیوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1493) یہاں کا عذاب فانی وہاں کا باقی اور اس آگ کا عذاب جو یہاں کی آگ سے ستر حصے زیادہ تیز ہے پھر قید وہ جو تصور میں بھی نہ آ سکے ۔ جیسے فرمان ہے «فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ» ۱؎ (89۔الفجر:26،25) ، ’ آج اس عذاب جیسے نہ کسی کے عذاب نہ اس جیسی کسی کی قید و بند ‘ ۔ فرمان ہے «بَلْ کَذَّبُوا بِالسَّاعَۃِ وَأَعْتَدْنَا لِمَن کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیرًا إِذَا رَأَتْہُم مِّن مَّکَانٍ بَعِیدٍ سَمِعُوا لَہَا تَغَیٰظًا وَزَفِیرًا وَإِذَا أُلْقُوا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِینَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُورًا لَّا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا کَثِیرًا قُلْ أَذٰلِکَ خَیْرٌ أَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ کَانَتْ لَہُمْ جَزَاءً وَمَصِیرًا» » ۱؎ (25-الفرقان:11-15) ، ’ قیامت کے منکروں کے لیے ہم نے آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے دور سے ہی انہیں دیکھتے ہی شور و غل شروع کر دے گی وہاں کے تنگ و تاریک مکانات میں جب یہ جکڑے ہوئے ڈالے جائیں گے تو ہائے وائے کرتے ہوئے موت مانگنے لگیں گے ۔ ایک ہی موت کیا مانگتے ہو بہت سے موتیں مانگو ۔ اب بتاؤ کہ یہ ٹھیک ہے یا جنت خلد ٹھیک ہے جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے کہ وہ ان کا بدلہ ہے اور ان کا ہمیشہ رہنے کا ٹھکانا ‘ ۔ پھر نیکوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ «مَّثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِیہَا أَنْہَارٌ مِّن مَّاءٍ غَیْرِ آسِنٍ وَأَنْہَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہُ وَأَنْہَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ وَأَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مٰصَفًّی وَلَہُمْ فِیہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّن رَّبِّہِمْ کَمَنْ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:15) ’ ان سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اس کی ایک صفت تو یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف نہریں جاری ہیں جہاں چاہیں پانی لے جائیں پانی نہ بگڑنے والا پھر دودھ کی نہریں ہیں اور دودھ بہی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بگڑے اور شراب کی نہریں ہیں جس میں صرف لذت ہے ۔ نہ بدمزگی ، نہ بے ہودہ نشہ ، اور صاف شہد کی نہریں ہیں اور ہر قسم کے پھل ہیں اور ساتھ ہی رب کی رحمت مالک معرفت اس کے پھل ہمیشگی والے اس کی کھانے پینے کی چیزیں کبھی فنا ہونے والی نہیں ۔ [ کیا یہ پرہیزگار ] ان کی طرح [ ہو سکتے ] ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جن کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا تو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ‘ ۔ { جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پاؤں پیچھے کو ہٹنے لگے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں میں نے جنت کو دیکھا تھا اور چاہا تھا کہ ایک خوشہ توڑ لوں اگر لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1052) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ایک دن ظہر کی نماز میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناگاہ آگے بڑھے اور ہم بھی بڑھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا کوئی چیز لینے کا ارادہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ آئے ۔ نماز کے خاتمہ کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آج تو ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں میرے سامنے جنت پیش کی گئی جو تروتازگی سے مہک رہی تھی میں نے چاہا کہ اس میں سے ایک خوشہ انگور کا توڑ لاؤں لیکن میرے اور اس کے درمیان آڑ کر دی گئی اگر میں اسے توڑ لاتا تو تمام دنیا پوری دنیا تک اسے کھاتی رہتی اور پھر بھی ذار سا بھی کم نہ ہوتا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:352/3:ضعیف) { ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا جنت میں انگور ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، اس نے کہا کتنے بڑے خوشے ہوں گئے ؟ فرمایا : ” اتنے بڑے کہ اگر کوئی کالا کوا مہینہ بھر اڑتا رہے تو بھی اس خوشے سے آگے نہ نکل سکے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:183/4:اسنادہ قابل التحسین) اور حدیث میں ہے کہ { جنتی جب کوئی پھل توڑیں گے اسی وقت اس کی جگہ دوسرا لگ جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:1449:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنتی خوب کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوک آئے گی نہ ناک آئے گی نہ پیشاب نہ پاخانہ مشک جیسی خوشبو والا پسینہ آئے گا اور اسی سے کھانا ہضم ہو جائے گا ۔ جیسے سانس بے تکلف چلتا ہے اس طرح تسبیح و تقدیس الہام کی جائے گی “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) { ایک اہل کتاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ ہر شخص کو کھانے پینے ، جماع اور شہوت کی اتنی قوت دی جائے گی جتنی یہاں سو آدمیوں کو مل کر ہو “ ۔ اس نے کہا اچھا تو جو کھائے گا پئے گا اسے پیشاب پاخانے کی بھی حاجت لگے گی پھر جنت میں گندگی کیسی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں بلکہ پسینے کے راستے سب ہضم ہو جائے گا اور وہ پسینہ مشک بو ہوگا “ } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:11478:صحیح) فرماتے ہیں کہ { جس پرندے کی طرف کھانے کے ارادے سے جنتی نظر ڈالے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا اس کے سامنے گر پڑے گا } ۱؎ (مسند بزار:3532:ضعیف) بعض روایتوں میں ہے کہ پھر وہ اسی طرح بحکم الٰہی زندہ ہو کر اڑ جائے گا ۔ قرآن میں ہے «وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلَالُہَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُہَا تَذْلِیلًا» ۱؎ (76-الإنسان:14) ’ وہاں بکثرت میوے ہوں گے کہ نہ کٹیں نہ ، ٹوٹیں نہ ختم ہوں نہ گھٹیں سایے جھکے ہوئے شاخین نیچی ۔ سائے بھی دائمی ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا لَّہُمْ فِیہَا أَزْوَاجٌ مٰطَہَّرَۃٌ وَنُدْخِلُہُمْ ظِلًّا ظَلِیلًا» ۱؎ (4-النساء:57) ’ ایماندار نیک کر دار بہتی نہروں والی جنتوں میں جائیں گے وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور بہترین لمبے چوڑے سائے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنت کے ایک درخت کے سائے تلے تیز سواری والا سوار سو سال تک تیز دوڑتا ہوا جائے لیکن پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6553) قرآن میں ہے «وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» ۱؎ (56-الواقعہ:30) ’ سائے ہیں پھیلے اور بڑھے ہوئے ‘ ۔ عموماً قرآن کریم میں جنت اور دوزخ کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے تاکہ لوگوں کو جنت کا شوق ہو اور دوزخ سے ڈر لگے یہاں بھی جنت کا اور وہاں کی چند نعمتوں کا ذکر فرما کر فرمایا کہ ’ یہ ہے انجام پرہیزگار اور تقویٰ شعار لوگوں کا اور کافروں کا انجام جہنم ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُونَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ جہنمی اور جنتی برابر نہیں جنتی با مراد ہیں ‘ ۔ خطیب دمشق بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اے بندگان رب کیا تمہارے کسی عمل کی قبولیت کا یا کسی گناہ کی معافی کا کوئی پروانہ تم میں سے کسی کو ملا ؟ کیا تم سے کسی کو ملا ؟ «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:115) ’ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم بے کار پیدا کئے گئے ہو ؟ ‘ اور تم اللہ کے بس میں آنے والے نہیں ہو ؟ واللہ اگر اطاعت ربانی کا بدلہ دنیا میں ہی ملتا تو تم تمام نیکیوں پر جم جاتے ۔ کیا تم دنیا پر ہی فریفتہ ہو گئے ہو ؟ کیا اسی کے پیچھے مر مٹو گے ؟ کیا تمہیں جنت کی رغبت نہیں جس کے پھل اور جس کے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں “ ۔ (ابن ابی حاتم)