سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا (١) میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے (٢) میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. چونکہ اللہ کے نبی نے یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے ، خوبصورت ، تنو مند ، طاقتور ، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لیے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا ۔ نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے ۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پھیر نہیں کر سکتی ۔ اللہ کی قضاء کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا ۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے ۔ حکم اسی کا چلتا ہے ۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضاء کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے ۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے ۔ اس طرح وہ اللہ کی قضاء کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے ، الہامی علم ان کے پاس تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:250/7) ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ۔