وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ (١)
منافقت کی قسمیں دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو ۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی ۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں ۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ ان شاءاللہ کسی مناسب جگہ ہو گا ۔ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف ، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی کے خلاف ہوا کرتی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:270/1) نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور وہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے ۔ ان میں سے صرف سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی ۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتداء یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ ۔ بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا ۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا ۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی ، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4566) یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی ، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی ، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ اور مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی ۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال ، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے ۔ «فرضی اللہ عنہم اجمعین» سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ” یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:269/1) قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے ۔ “ ابوالعالیہ ، حسن ، قتادہ ، سدی رحمہ اللہ علیہم نے یہی بیان کیا ہے ۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بدخصلتوں کا یہاں بیان فرمایا ۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے ۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ المنافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ «إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَ اللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللہُ» ۱؎ (63-المنافقون:1) الخ یعنی ’منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے‘ لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لیے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا ۔ اور سورۃ المنافقون میں فرمایا : «وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ» ۲؎ (63-المنافقون:1) یعنی ’اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں‘ اور یہاں بھی فرمایا : «وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِینَ» ۳؎ (2-البقرۃ:8) یعنی دراصل ’وہ ایماندار نہیں‘ وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ أَلَا إِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُونَ» ۴؎ (58-المجادلۃ:18) یعنی ’قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں ، خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں‘ ۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں ۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا : «اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ» ۵؎ (4-النساء:142) یعنی ’منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے‘ ۔ بعض قاریوں نے «یَخْدَعُوْنَ» پڑھا ہے اور بعض «یُخَادِعُونَ» مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں «مُخَادِع» کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل ، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لیے انہیں دھوکہ باز کہا گیا ۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لیے انتہائی برا عذاب اور غضب الہٰی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا ۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا ۔ ان کے کفر ، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں ۔ ابن جریج رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «لا الہ الا اللہ» کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوتا ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:46/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ ، دل میں کچھ ، عمل کچھ ، عقیدہ کچھ ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:47/1)