فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَٰؤُلَاءِ ۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُم مِّن قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ
اس لئے آپ ان چیزوں سے شک و شبہ میں نہ رہیں جنہیں یہ لوگ پوج رہے ہیں، ان کی پوجا تو اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تھی۔ ہم ان سب کو ان کا پورا پورا حصہ بغیر کسی کمی کے دینے والے ہیں (١)
مشرکوں کا حشر مشرکوں کے شرک کے باطل ہونے میں ہرگز شبہ تک نہ کرنا ۔ ان کے پاس سوائے باپ دادا کی بھونڈی تقلید کے اور دلیل ہی کیا ہے ؟ ان کی نیکیاں انہیں دنیا میں ہی مل جائیں گی آخرت میں عذاب ہی عذاب ہوگا ۔ جو خیر و شکر کے وعدے ہیں سب پورے ہونے والے ہیں ۔ ان کے عذاب کا مقررہ حصہ انہیں ضرور پہنچے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی لیکن لوگوں نے تفرقہ ڈالا ۔ کسی نے اقرار کیا تو کسی نے انکار کر دیا ۔ پس انہی نبیوں جیسا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے کوئی مانے گا کوئی ٹالے گا ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مٰسَمًّی فَاصْبِرْ عَلَیٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ» ۱؎ (20-طہ:129-130) ’ چونکہ ہم وقت مقرر کر چکے ہیں چونکہ ہم بغیر حجت پوری کئے عذاب نہیں کیا کرتے اس لیے یہ تاخیر ہے ورنہ ابھی انہیں ان کے گناہوں کا مزہ یاد آ جاتا ہے پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ ‘ ۔ کافروں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں غلط ہی معلوم ہوتی ہیں ۔ ان کا شک و شبہ زائل نہیں ہوتا ۔ سب کو اللہ جمع کرے گا اور ان کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس قرأت کا بھی معنی اس ہمارے ذکر کردہ معنی کی طرف ہی لوٹنا ہے ۔