سورة البقرة - آیت 7

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مہر کیوں لگا دی گئی؟ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ختم» سے مراد «طبع» ہے یعنی مہر لگا دی ۱؎ ، (تفسیر ابن ابی حاتم:44/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں ۲؎ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ بس یہی «طبع» اور «ختم» یعنی مہر ہے ۳؎ ۔ دل اور کان کے لیے محاورہ میں مہر آتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن میں «رَاَن» کا لفظ ہے «طبع» کا لفظ ہے اور «اقفال» کا لفظ ہے ۔ «رَاَن» ، «طبع» سے کم ہے اور «طبع» ، «اقفال» سے کم ہے ، «اقفال» سب سے زیادہ ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:259/1) مجاہد رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے ، اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہو گئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا ۔ اسے «زین» بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں ہو سکتا اس لیے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ۔ زمحشری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا ۔ ایک جگہ ارشاد ہے : «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (61-الصف:5) یعنی ’جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے‘ ۔ اور فرمایا : «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۲؎ (6-الأنعام:110) ’ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں‘ ، اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں ۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے ۔ ان کے حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری ۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے ۔ فرمایا ہے : «بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:155) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی ۔ حدیث میں بھی ہے کہ { اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے ۔ دعا میں ہے «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» یعنی ” اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ “ } ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:199،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حذیفہ رضی اللہ عنہا والی حدیث میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے ، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے ۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی [جو حق قبول نہیں کرتا] پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے ، نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:6497) امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ {مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ «رَاَن» ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے «کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ» ۲؎ (83-المطففین:14) یعنی ’ یقیناً ان کے دلوں پر «رَاَن» ہے ، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ‘ } ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3334،قال الشیخ الألبانی:حسن) [ترمذی ، نسائی ، ابن جریر] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الہٰی لگ جاتی ہے جسے «ختم» اور «طبع» کہا جاتا ہے ۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی ۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت : «خَتَمَ اللہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:6) میں ہے ، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے ۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے ، نہ کفر جائے ۔ «سَمْعِہِمْ» پر پورا وقف ہے اور آیت «وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ» ۲؎ (2-البقرۃ:7) الگ پورا جملہ ہے ۔ «ختم» اور «طبع» دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور «غِشَاوَۃ» یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے ۔ جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:266/1) قرآن میں ہے : «فَإِنْ یَشَإِ اللہُ یَخْتِمْ عَلَیٰ قَلْبِکَ وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقٰ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ» ۔ ۴؎ (42-الشوری:24) اور جگہ ہے : «وَخَتَمَ عَلَیٰ سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِہِ غِشَاوَۃً» ۵؎ (45-الجاثیۃ:23) ان آیتوں میں دل اور کان پر «ختم» کا ذکر ہے اور آنکھ پر «غِشَاوَۃً» پردے کا ۔ بعض نے یہاں «غِشَاوَۃً» زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل «جَعَلَ» مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے «وَحُورٌ عِینٌ» ۱؎ (56-الواقعۃ:22) میں ۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا ۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں ۔ اس لیے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برات اتری اور انہی کا ذکر سورۃ النور وغیرہ میں بھی کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں ۔