مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے ۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی “ ۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لئے نماز پڑھے ، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بیان ہے ” یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری “ ، اور مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ” ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے “ ۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے ۔ قرآن کریم کی آیات «مَّن کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیہَا مَا نَشَاءُ لِمَن نٰرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلَاہَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا کُلًّا نٰمِدٰ ہٰؤُلَاءِ وَہٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیلًا» (17-الإسراء:18-21) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ ’ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں ۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے ۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایماندار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں ۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے ۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدٰنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ» (42-الشوری:20) ’ جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بے نصیب رہ جاتا ہے ‘ ۔