قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
آپ کہہ دیجئے (١) کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (٢) لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے (٣) اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے رہوں۔
دین حنیف کی وضاحت یکسوئی والا سچا دین جو میں اپنے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اس میں اے لوگوں اگر تمہیں کوئی شک شبہ ہے تو ہو ، یہ تو ناممکن ہے کہ تمہاری طرح میں بھی مشرک ہو جاؤں اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرنے لگوں ۔ میں تو صرف اسی اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی میں لگا رہوں گا جو تمہاری موت پر بھی ویسا ہی قادر ہے جیسا تمہاری پیدائش پر قادر ہے تم سب اسی کی طرف لوٹنے والے اور اسی کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ اچھا اگر تمہارے یہ معبود کچھ طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ جو ان کے بس میں ہو مجھے سزا دیں ۔ حق تو یہ ہے کہ نہ کوئی سزا ان کے قبضے میں نہ جزا ۔ یہ محض بے بس ہیں ، بے نفع و نقصان ہیں ، بھلائی برائی سب میرے اللہ کے قبضے میں ہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے ، مجھے اس کا حکم ہے کہ میں مومن رہوں ۔ یہ بھی مجھے حکم مل چکا ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کرو ۔ شرک سے یکسو اور بالکل علیحدہ رہوں اور مشرکوں میں ہرگز شمولیت نہ کروں ۔ خیر و شر نفع ضرر ، اللہ ہی کے ہاتھ میں ۔ کسی اور کو کسی امر میں کچھ بھی اختیار نہیں ۔ پس کسی اور کی کسی طرح کی عبادت بھی لائق نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اپنی پوری عمر اللہ تعالیٰ سے بھلائی طلب کرتے رہو ۔ رب کی رحمتوں کے موقع کی تلاش میں رہو ۔ ان کے موقعوں پر اللہ پاک جسے چاہے اپنی بھرپور رحمتیں عطا فرما دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عیبوں کی پردہ پوشی اپنے خوف ڈر کا امن طلب کیا کرو } ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:328/8:ضعیف و منقطع) پھر فرماتا ہے کہ ’ جس گناہ سے جو شخص جب بھی توبہ کرے ، اللہ اسے بخشنے والا اور اس پر مہربانی کرنے والا ہے ‘ ۔