فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
افسوس انسان نے اکثر حق کی مخالفت کی کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی علیہ السلام پر کبھی ایمان نہیں لائے ، یا تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے ۔ سورۃ یٰسین میں فرمایا «یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ» ۱؎ (36-یس:30) ’ بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان کا مذاق اڑایا ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «کَذٰلِکَ مَا أَتَی الَّذِینَ مِن قَبْلِہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ» ۱؎ (51-الذاریات:52) ’ ان سے پہلے رسول آئے ، انہیں لوگوں نے جادوگر یا مجنون کا ہی خطاب دیا ‘ ۔ «وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَیٰ آثَارِہِم مٰقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب کو ان کی قوم کے سرکش ساہو کاروں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو جس لکیر پر پایا اسی کے فقیر بنے رہیں گے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھ پر انبیاء علیہم السلام پیش کئے گئے کسی نبی علیہ السلام کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا ۔ کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی کوئی محض تنہا } ۔ پھر آپ نے موسیٰ علیہ السلام کی امت کی کثرت کا بیان کیا ۔ پھر اپنی امت کا ، اس سے بھی زیادہ ہونا ۔ زمین کے مشرق مغرب کی سمت کو ڈھانپ لینا بیان فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6541) الغرض تمام انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی ساری امت نے انہیں نبی نہیں مانا ۔ سوائے اہل نینویٰ کے جو یونس علیہ السلام کی امت کے لوگ تھے ۔ یہ بھی اس وقت جب نبی علیہ السلام کی زبان سے عذاب کی خبر معلوم ہوگئی ، پھر اس کے ابتدائی آثار بھی دیکھ لیے ۔ ان کے نبی علیہ السلام انہیں چھوڑ کر چلے بھی گئے ۔ اس وقت یہ سارے کے سارے اللہ کے سامنے جھک گئے اس سے فریاد شروع کی ، اس کی جناب میں عاجزی اور گریہ و زاری کرنے لگے ، اپنی مسکینی ظاہر کرنے لگے ۔ اور دامن رحمت سے لپٹ گئے ۔ سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں ، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اٹھا کر لے گئے ۔ اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے دعائیں مانگنے لگے کہ یا رب عذاب ہٹا لے ۔ رحمت رب جوش میں آئی ، پروردگار نے ان سے عذاب ہٹا لیا اور دنیا کی رسوائی کے عذاب سے انہیں بچا لیا ۔ اور ان کی عمر تک کی انہیں مہلت دے دی اور اس دنیا کا فائدہ انہیں پہنچایا ۔ یہاں جو فرمایا کہ ’ دنیا کا عذاب ان سے ہٹا لیا ‘ ۔ اس سے بعض نے کہا ہے کہ اُخروی عذاب دور نہیں ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لیے کے دوسری آیت میں ہے «وَأَرْسَلْنَاہُ إِلَیٰ مِائَۃِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاہُمْ إِلَیٰ حِینٍ» ۱؎ (37-الصافات:147،148) ’ وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں زندگی کا فائدہ دیا ‘ ۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ ایمان لائے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان آخرت کے عذاب سے نجات دینے والا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کس بستی اہل کفر کا عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا ان کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوا ۔ سوائے قوم یونس علیہ السلام کی قوم کے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نبی علیہ السلام ان میں سے نکل گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے ، اس وقت توبہ استغفار کرنے لگے ٹاٹ پہن کر خشوع و خضوع سے میلے کچیلے میدان میں آکھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے دور کردیا ۔ جانوروں کے تھنوں سے ان کے بچوں کو الگ کر دیا ۔ اب جو رونا دھونا اور فریاد شروع کی تو چالیس دن رات اسی طرح گزار دیئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی سچائی دیکھ لی ۔ ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائی اور ان سے عذاب دور کر دیا ، یہ لوگ موصل کے شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے ۔ «فَلَوْلَا» کی «فَھَلَّا» قرأت بھی ہے ان کے سروں پر عذاب رات کی سیاہی کے ٹکڑوں کی طرح گھوم رہا تھا ان کے علماء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جنگل میں نکل کھڑے ہو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہم سے اپنے عذاب کو دور کر دے اور یہ کہو «یَا حَیٰ مُحْییْ الْـمَـوْتٰی یَا حَیٰ لَاۤ إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ» قوم یونس کا پورہ قصہ سورۃ الصافات کی تفسیر میں ان شاءاللہ العزیز ہم بیان کریں گے ۔