وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے (١) سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں (٢)
فرعون کا تکبر اور موسیٰ علیہ السلام کی بددعا جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر ، تحیر ، تعصب بڑھتا ہی گیا ۔ ظلم و ستم بے رحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ ” یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے ۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے “ ۔ یہ مطلب تو ہے جب «لِیَضِلٰوْا» پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب «لِیُضِلٰوْا» پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لیے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے ؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے ۔ چنانچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے ۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہو گئیں ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ اس سورۃ یونس کی تلاوت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃالمسلمین نے سوال کیا کہ یہ «طْمِسْ» کیا چیز ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا ۔ (الدر المنشور للسیوطی:566/3:ضعیف)۔ اور دعا کی کہ ” پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگا دے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو “ ۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا ۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آ گئی ۔ نوح علیہ السلام کی دعا ہے کہ «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا إِنَّکَ إِن تَذَرْہُمْ یُضِلٰوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26،27) ’ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اوروں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہو گی وہ بھی انہیں جیسی بے ایمان بدکار ہوگی ‘ ۔ جناب باری نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی ۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ” ہماری یہ دعا مقبول ہوگئی “ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ علیہ السلام تھے آمین کہنے والے ہارون علیہ السلام تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی ۔ پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے ۔ ’ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ ‘ ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن ۔