سورة یونس - آیت 18

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یہ لوگ اللہ کے سوا (١) ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں (٢) اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں (٣) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں (٤) وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے (٥)۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شرک کے آغاز کی روداد مشرکوں کا خیال تھا کہ جن کو ہم پوجتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اس غلط عقیدے کی قرآن کریم تردید فرماتا ہے کہ ’ وہ کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ان کی شفاعت تمہارے کچھ کام نہ آئے گی ۔ تم تو اللہ کو بھی سکھانا چاہتے ہو گویا جو چیز زمین آسمان میں وہ نہیں جانتا تم اس کی خبر اسے دینا چاہتے ہو ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک و کفر سے پاک ہے وہ برتر و بری ہے ‘ ۔ سنو پہلے سب کے سب لوگ اسلام پر تھے ۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نوح علیہ السلام تک دس صدیاں وہ سب لوگ مسلمان تھے ۔ پھر اختلاف رونما ہوا اور لوگوں نے تیری میری پرستش شروع کر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے سلسلوں کو جاری کیا تاکہ «لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَیٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃٍ» ۱؎ (8-الأنفال:42) ’ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے زندہ رہے جس کا جی چاہے مر جائے ‘ ۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت مؤخر ہے ۔ ورنہ ابھی ہی حساب چکا دیا جاتا ۔ مومن کامیاب رہتے اور کافر ناکام ۔