وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے (١) ان کو سزا دے گا (٢) یا ان کی توبہ قبول کرلے گا (٣) اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے۔
. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد اور عکرمہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے کہا کہ یہ تین شخص تھے کہ جن کی توبہ کی قبولیت پیچھے پڑ گئی تھی اور وہ مرارہ بن ربیع اور کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم تھے اور غزوہ تبوک میں یہ بھی ان لوگوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے جنہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی بہ سبب سستی اور آرام طلبی کے اور اس سبب سے کہ ان کے باغات میں پھل پکنے کا موسم تھا کاشت تیار کھڑی تھی ۔ سایہ دار اور بہار کی لطف انگیزی کا زمانہ تھا ۔ یہ کوتاہی اور منافقت کی بنا پر نہیں تھی چنانچہ ان میں چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ رکھا تھا جیسے کہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ۔ دوسرے چند لوگوں نے ایسا نہ کیا اور یہ مذکورہ بالا تین اشخاص تھے ۔ ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ تو ان لوگوں سے پہلے ہی قبول ہو چکی تھی ۔ اور زیر ذکر لوگوں کی توبہ کی قبولیت التوا میں پڑ گئی تھی حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی اور وہ ہے «لَّقَد تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ» (9-التوبۃ:117) اور «وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّیٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ» (9-التوبۃ:118) یعنی اللہ نے نبی اور مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کر لی (آخر آیت تک) اور ان تینوں شخصوں کی توبہ بھی قبول کر لی جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے حتیٰ کہ اتنی وسیع دنیا بھی ان پر تنگ ہو گئی تھی اور کہیں انہیں پناہ نہ مل سکتی تھی جیسا کہ حدیث کعب بن مالک میں اس کا بیان آنے والا ہے اور قولہ تعالیٰ «إِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْہِمْ» (9-التوبۃ:106) یعنی وہ تحتِ عفوِ ربانی ہیں اگر وہ چاہے تو ان سے ایسا برتاؤ کرے اور اگر چاہے تو ویسا ۔ لیکن اللہ کی رحمت تو اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے اور اللہ تو مستحق عقوبت کو جانتا ہے کہ کون عفو کا مستحق ہے اور وہ اپنے افعال و اقوال میں حکیم ہے اس کے سوا کوئی اللہ اور کوئی رب نہیں ۔