سورة التوبہ - آیت 83

فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت (١) کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں (٢) تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کرسکتے ہو۔ تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا (٣) پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو (٤)۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مکاروں کی سزا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہ دینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو ، تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی ؟ پس یہ آیت مثل آیت «وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ» ۱؎ (6-الانعام:110) الخ کے ہے ۔ بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزا بھی نیکی کے بعد ملتی ہے ۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآن نے فرمایا تھا ۔ ۱؎ «سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْــطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ» (48-الفتح:15) الخ یعنی یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے جب تم غنیمتیں لینے چلو گے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں ، یہاں فرمایا کہ ان سے کہ دینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہو ، جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں ۔