يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے ، ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لیے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کو سب سے فرما دیا ۔ کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو ؟ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں پر ریجھ کر آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو ؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ” اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت میں ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2858) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ” میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثواب دیتا ہے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے “ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:10030/6:ضعیف) مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا : ” بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا بہت بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے “ ۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے ۔ ایک قبیلے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں پھولنا نہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کے ساتھی اوروں کو کر دے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت «اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا» ۱؎ (9-التوبہ:41) اور آیت «مَا کَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ» ۱؎ (9-التوبہ:120) یہ سب آیتیں آیت «وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَاۗفَّۃً» ۱؎ (9-التوبہ:12) سے منسوخ ہیں ۔ لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ” یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں “ ۔ فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ۔