وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی (١)۔
مہاجر اور انصار میں وحدت مومنوں کا دنیوی حکم ذکر فرما کر اب آخرت کا حال بیان فرما رہا ہے ان کے ایمان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے جیسے کہ سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے انہیں بخشش ملے گی ان کے گناہ معاف ہوں گے انہیں عزت کی پاک روزی ملے گی جو برکت والی ہمیشگی والی طیب و طاہر ہو گی قسم قسم کی لذیذ عمدہ اور نہ ختم ہونے والی ہو گی ۔ ان کی اتباع کرنے والے ایمان و عمل صالح میں ان کا ساتھ دینے والے آخرت میں بھی درجوں میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے ۔جیسا کہ «وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ۭذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 100 ) اور «وَالَّذِیْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ ( 59- الحشر : 10 ) میں ہے ۔ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے کہ { انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6167) دوسری حدیث میں ہے { جو کسی قوم سے محبت رکھے وہ ان میں سے ہی ہے ۔ ایک روایت میں ہے اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا ۔} ۱؎ (طبرانی صغیر:874) مسند احمد کی حدیث گذر چکی ہے کہ { مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسری کے ولی ہیں فتح مکہ کے بعد مسلمان قریشی اور ثقیف کے آزاد شدہ آپس میں ایک ہیں ، قیامت تک یہ سب آپس میں ولی ہیں ۔} ۱؎ (مسند احمد:363/4:صحیح) پھر اولو الارحام کا بیان ہوا یہاں ان سے مراد وہی قرابت دار نہیں جو علماء فرائض کے نزدیک اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور جو عصبہ بھی ہوں جیسے خالہ، ماموں، پھوپھی، نواسے، نواسیاں، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ ۔ بعض کا یہی خیال ہے آیت سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے اس بارے میں صراحت والی بتاتے ہیں ۔ یہ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے تمام قرابت داروں کو شامل ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ،مجاہد ،عکرمہ ،حسن ،قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ناسخ ہے آپس کی قسموں پر وارث بننے کی اور بھائی چارے پر وارث بننے کی جو پہلے دستور تھا پس یہ علماء فرائض کے ذوی الارحام کو شامل ہو گی خاص نام کے ساتھ ۔ اور جو انہیں وارث نہیں بناتے ان کے پاس کئی دلیلیں ہیں سب سے قوی یہ حدیث ہے کہ { اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دلوادیا ہے پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2870،قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی حقدار ہوتے تو ان کے بھی حصے مقرر ہو جاتے جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۂ انفال کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ پر ہمیں بھروسہ ہے وہی ہمیں کافی ہے اور وہی کارساز ہے۔