سورة الانفال - آیت 41

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو (١) اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، (٢) اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا (٣) جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا (٤) جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے (٥)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مال غنیمت کی تقسیم کا بیان اللہ تعالیٰ یہاں مال غنیمت کی تفصیل بیان کرتا ہے جو اس نے خاص طور پر امت کے لئے حلال کیا ہے۔ اس سے قبل تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام تھا ۔ لیکن اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کر دیا ۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے ۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہی خیال ہے ۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں ۔ اسی لیے قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورۃ الحشر کی« مَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَیٰ رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ فَلِلہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینِ» ۱؎ ( 59-الحشر : 7 ) کی ناسخ ہے ۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے ۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہیئے ۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے «وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلٰ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:161) ’ جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہو گا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘ کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لیے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا ۔ حضرت ابوالعالیہ ریاحی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ حصے کرتے تھے ۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کعبے میں داخل کر دیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قرابت داروں کا ۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16117) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس یہ فرمان کہ «أَنَّ لِلہِ خُمُسَہُ» یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے ۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی حصہ ہے ۔ اسی کی تائید بیھقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے ۔ } اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں۔ } ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:324/6) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لیے اس حصے پر رضامند نہ ہو جاؤں جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے چار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر یہ حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہو اس کا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا ہے۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں۔ مقدام بن معدیکرب عبادہ بن صامت ابودرداء اور حارث بن معاویہ کندی رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابوداؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہو گئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ ” مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو ، خیانت نہ کرو ، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے ۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو ۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو ۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لیے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2850،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے ۔ ابوداؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بعض چیزیں اپنی ذات کے لیے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ ۔۱؎ (سنن ابوداود:2694،قال الشیخ الألبانی:) جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی رحمہ اللہ علیہم اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا ۔۱؎ (سنن ترمذی:1561،قال الشیخ الألبانی:حسن) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح آئیں تھیں ۔۱؎ (سنن ابوداود:2994،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد وغیرہ میں ہے یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ { یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہو ۔ } ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۱؎ (سنن ابوداود:2999،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لیے اکثر بزرگوں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خواص میں سے شمار کیا ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کر سکتا ہے ، جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے ۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے ۔ جب یہ ثابت ہو گیا اور معلوم ہو گیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا اسے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہو گا ۔ سیدنا ابوبکر، سیدنا علی رضی اللہ عنہم ،قتادہ رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہو گا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہو گا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر ۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے ۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں ۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کو ملے گے ۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو ۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے ۔ ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کرتے تھے ۔ پوچھا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بارے میں کیا کرتے تھے ؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے ۔ اکثر علماء رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے ۔ اس لیے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کر لیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں تھے ، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے ۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گو یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے ۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کر چکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لیے ابوطالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں وغیرہ ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور سیدنا عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { سنو! بنو ہاشم اور بنو المطلب تو بالکل ایک ہی چیز ہیں۔} ۱؎ (صحیح بخاری:3140) ۔ بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ { انہوں نے تو مجھ سے نہ کبھی جاہلیت میں جدائی برتی نہ اسلام میں۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2980،قال الشیخ الألبانی:) مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کر دیا ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ علی بن حسین رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے استفتاء کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1812) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے ۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں ۔ اس میں ضعف بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمہارے لیے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیر لیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے۔ } یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابوحاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں۔ ۱؎ (میزان الاعتدال:68/1) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں ۔ «مَسَاکِینِ» سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہو جائے اور انہیں کافی ہو جائے ۔ «ابْنِ السَّبِیلِ» وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو ۔ اس کی تفسیر سورۃ برات کی« إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 60 ) کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کر دیا کرو ۔‘ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں ۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:53) پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کر دیا ہے «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ»۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ ’ اس نے حق و باطل میں فرق کر دیا ۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا ۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا۔ ‘ پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہوگئی ۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے ۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا ۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی ۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لیے گئے ۔ مستدرک حاکم میں ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لیے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا ۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی ۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے ۔ ہاں یزید بن ابوجعد رحمہ اللہ جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقیناً ان کے قول پر مقدم ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔