وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ
اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔
اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ یہاں حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کو بکثرت یاد کر ۔ اور جگہ بھی ہے «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ» ۱؎ (50-ق:39) یعنی ’ اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو ، سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے ۔ «غدو» کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو ۔ «اصال» جمع ہے «اصیل» کی ، جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔ حکم دیا کہ رغبت ، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں ، اپنی زبان سے کرتے رہو ۔ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لیے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری «وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ» ۱؎ (2-البقرۃ:186) ’ جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں ۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے ، قبول فرما لیا کرتا ہوں ۔ ‘ بخاری و مسلم میں ہے کہ { لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا : لوگو ! اپنی جانوں پر ترس کھاؤ ۔ تم کسی بہرے کو ، یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکارتے ہو ، وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے ۔ تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے ، اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6610) ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت «وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:110) یعنی ’ اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو ۔ ‘ سے ہے ۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو ، جبرئیل کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں ، نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند ، نہ بہت آہستہ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا ، اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور مراد اس سے یا تو نماز میں ہے ، یا نماز اور خطبے میں ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر ، پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ اس لیے مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔ [ ان دونوں بزرگوں کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے اور دونوں آیات کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ] اسی لیے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ دن رات اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں ، بالکل تھکتے نہیں ۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں ، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ ان کا ذکر اس لیے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لیے ہمارے لیے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا ، فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے : { تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:430) اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے ۔ پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیات میں شمار کیا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1056 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الحمدللہ ! تفسیر سورۃ الاعراف ختم ہوئی ۔