خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
آپ درگزر اختیار کریں (١) نیک کام کی تعلیم دیں (٢) اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں (٣)۔
اچھے اعمال کی نشاندہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ “ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام تفصیل کے ساتھ نہیں اترے تھے ، اس لیے یہی حکم تھا ۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ” ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔ ” یہ بھی مطلب ہے کہ ” مشرکین سے بدلہ نہ لو ۔ “ دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگزر کرتے رہو ، پھر جہاد کے احکام اترے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ ” لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں ، انہی پر نظریں رکھو ، ان کے باطن نہ ٹٹولو ، تجسس نہ کرو ۔ “ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے اور یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ حدیث میں ہے کہ { اس آیت کو سن کر جبرائیل علیہ السلام سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے ، تو اس سے درگزر کر ۔ جو تجھے نہ دے ، تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے ، تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔ } (تفسیر ابن جریر الطبری:15559) مسند احمد میں ہے : { عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : جو تجھ سے توڑے ، تو اس سے بھی جوڑ ۔ جو تجھ سے روکے ، تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے ، تو اس پر بھی رحم کر ۔ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:891) اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔ «عرف» سے مراد نیک ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { عیینہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ، حر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے ، آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے ۔ خواہ وہ جوان ہوں ، خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المؤمنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئیے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لیے اجازت چاہی ۔ امیر المؤمنین نے اجازت دے دی ، یہ جاتے ہی کہنے لگے : اے ابن خطاب ! تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حر نے کہا : اے امیر المؤمنین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگزر کی عادت رکھ ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المؤمنین یقین کیجئے ، یہ نرا جاہل ہے ۔ قرآن کریم کی اس آیت کا امیر المؤمنین کے کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم ، غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر اللہ کا نام سنا ، ادھر گردن جھکا دی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4642) امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے پوتے سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا : یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے ، اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے ؟ سالم نے آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کر لی ۔ عرف ، معروف ، عارف ، عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا ۔ پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر ۔ گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تکلیف برداشت کر لیا کرو ، تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے ، تم اسے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے ، تم اسے کچھ نہ کہنا ، یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔ «خذ العفو وامر بعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین» یعنی درگزر کیا کر ، بھلی بات بتا دیا کر ، جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نادانوں سے ہٹ جایا کر ، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آیا کر ، یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ، ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں ، قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔ دوسرے بد اور ظالم ، انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے ۔ پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو ، تو ان سے روگردانی کر لے ۔ یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی ۔ جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے «ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَن یَحْضُرُونِ» ۱؎ (23-المؤمنون:96-98) اور آیت «وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِ اللہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (41-فصلت:34-36) بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے ، لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں ۔ اس کے بعد شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا ، اس لیے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش ۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عفوودرگزر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔ یہ تینوں حکم جو سورۃ الاعراف کی ان تین آیات میں ہیں ، یہی سورۃ مومنون میں بھی ہیں اور سورۃ حم السجدہ میں بھی ہیں ۔ شیطان تو آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے ، جوش میں لائے ، فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے ، جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا : اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے ، کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی «اعوذ» کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ { دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے ، اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے ۔ وہ کلمہ «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» ہے ۔ کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:3282) «نزغ» کے اصلی معنی فساد کے ہیں ، وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ فرمان قرآن ہے کہ «وَقُل لِّعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ» ۱؎ (17-الإسراء:53) ’ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں ۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ۔ ‘ «عیاذ» کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور «ملاذ» کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔ «بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظما انت کاسرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ» یعنی اے اللہ ! تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا چاہے ، اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے ، اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔ باقی احادیث جو تعوذ [ اعوذ باللہ ] کے متعلق تھیں ، وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔