سورة الاعراف - آیت 136

فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریاؤں میں غرق کردیا اور اس سب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل غفلت کرتے تھے (١)۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

انجام سرکشی جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور خود پسندی میں اتنے بڑھ گئے کہ باری تعالیٰ کی بار بار کی نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان لانے سے برابر انکار کرتے رہے تو قدرت نے اپنے زبردست انتقام میں انہیں پھانس لیا اور سب کو دریا برد کر دیا ۔ بنی اسرائیل بحکم الٰہی ہجرت کر کے چلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا ان کے لیے خشک ہو گیا ۔ پھر فرعون اور اس کے ساتھی اس میں اترے تو دریا میں پھر روانی آ گئی اور پانی کا ریلہ آیا اور وہ سب ڈوب گئے ۔ یہ تھا انجام اللہ کی باتوں کو جھوٹ سمجھنے اور ان سے غافل رہنے کا ۔ پھر پروردگار نے بنو اسرائیل جیسے کمزور ، ناتواں لوگوں کو اس زمین کا وارث بنا دیا ۔ مشرق و مغرب ان کے قبضے میں آ گیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم نے ان بے بسوں پر احسان کرنا چاہا اور انہیں امام اور وارث بنانا چاہا ۔ انہیں حکومت سونپ دی اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکریوں کو وہ نتیجہ دکھایا جس سے وہ بھاگ رہے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ فرعونیوں سے ہرے بھرے باغات ، چشمے ، کھیتیاں ، عمدہ مقامات ، فراواں نعمتیں چھڑوا کر ہم نے دوسری قوم کے سپرد کر دیں ۔ سرزمین شام برکت والی ہے ۔ یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ بنی اسرائیل کا صبر نیک نتیجہ لایا ، فرعون اور اس کی قوم کی بنی بنائی چیزیں غارت ہوئیں ۔