سورة الاعراف - آیت 83

فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

لوطی تباہ ہو گئے لوط علیہ السلام اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے ۔ بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا ۔ جیسے فرمان رب ہے «فَأَخْرَجْنَا مَن کَانَ فِیہَا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَمَا وَجَدْنَا فِیہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (51-الذاریات:35-36) یعنی ’ وہاں جتنے مومن تھے ، ہم نے سب کو نکال دیا لیکن بجز ایک گھر والوں کے ، وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔ ‘ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی ۔ اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی ۔ اسی لیے لوط علیہ السلام سے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی ۔ وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ قوی پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے لوط علیہ السلام نے عذاب کی خبر کی ، نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ۔ یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ «غابرین» کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کے کئے ہیں ، وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے ، وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا ۔ وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کے لئے آسمان سے اتر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بےانصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے ، پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیئے ۔ کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی ۔ “ اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ ” اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی شدہ ہو ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ ، اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4462،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علماء کی ایک جماعت کا قول ہے : ” یہ بھی مثل زناکاری کے ہے ۔ شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔