سورة البقرة - آیت 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ (٣) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب ہمیشہ سے حق پہچاننے کے باوجود اس کے انکاری رہے ہیں اسی کا سبب ہے کہ ان پر اللہ کی پھٹکار برستی ہے۔ یہود اہل ثروت ہونے اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود عرب میں سیاسی اقتدار سے محروم تھے۔ اس وجہ سے وہ عیسائیوں، مشرکوں اور دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ بحث و تکرار کرتے ہوئے کہا کرتے کہ عنقریب نبی آخر الزماں {ﷺ}تشریف لانے والے ہیں ہم اس کی رہنمائی اور قیادت میں تم سب پر غلبہ پائیں گے۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر نہایت آہ و زاری سے دعائیں کیا کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے حلف دیتے کہ ہمارے پاس آخری نبی تشریف لائے تو ہم اس کی نصرت و حمایت کریں گے۔ [ البقرۃ:89] اسی اثناء میں محمد عربی {ﷺ}مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آپ نے انہیں کتاب الٰہی کا پیغام دیتے ہوئے اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو اس طرح پہچان لیا جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ علامہ ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں حضرت ابن عباس {رض}کے حوالے سے لکھتے ہیں : ” رسول اللہ {ﷺ}کے مبعوث ہونے سے پہلے یہودی اوس اور خزرج پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ {ﷺ}کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو یہودیوں نے اپنی بات کا انکار کردیا۔ معاذ {رض}اور بشر بن براء {رض}نے کہا اے یہودیو! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤکیونکہ جب ہم مشرک تھے تو تم ہمیں نبی آخر الزماں {ﷺ}کا حوالہ دے کر فتح کی دعائیں کرتے تھے۔ اور تم ہمیں مبعوث ہونے والے نبی اور اس کی صفات کے متعلق بتلاتے رہتے تھے۔ سلام بن مشکم کہنے لگا : ہمارے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں آئی کہ جسے ہم پہچانتے ہوں۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے متعلق ہم تمہیں بتلاتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ﴿ولما جاء ھم﴾نازل فرمادی۔“ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ” الرحیق المختوم“ میں لکھتے ہیں : ” رسول اللہ {ﷺ}شرف وعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت، صدق وصفا اور جملہ امور خیر میں آپ {ﷺ}کا وہ امتیازی مقام تھا کہ آپ {ﷺ}کے دشمنوں کو بھی آپ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپ کی زبان سے جو بات نکلی دشمنوں کو یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہو کررہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا۔ لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا۔ ان تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد {ﷺ}سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبدِمناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے غرباء ومساکین کو کھلایا تو ہم نے بھی کھانا کھلایا، انہوں نے دادو دہش میں سواریاں عطا کیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا، یہاں تک کہ جب ہم اور وہ ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دو مدِّ مقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنو عبد مناف کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتائیے ہم اسے کب پاسکتے ہیں؟ خدا کی قسم! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔“ مسائل: 1۔ رسول اللہ {ﷺ}کے ساتھ حسد و بغض کی وجہ سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا غضب، اور عذاب مسلّط ہوا۔ 2۔ حق کا انکار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : رسول اللہ {ﷺ}کی تشریف آوری کا انتظار: 1۔ بنی اسرائیل رسول اللہ {ﷺ}کی رسالت کے منتظر تھے۔ (فاطر :42) 2۔ یہود و نصاریٰ رسول اللہ {ﷺ}کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ :146) 3۔ رسول اللہ {ﷺ}کی آمد کی بنیاد پر لوگوں پر فتح یاب ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ (البقرۃ :89)