سورة الانعام - آیت 160

مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے (١) جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلی آیت کے آخری الفاظ ﴿بما کانو یفعلون﴾ ہیں۔ یہاں اعمال کی تشریح اور ان کی حیثیت بیان فرمائی کہ اگر لوگ نیکی کریں گے تو اس کا کم ازکم دس گنا اجر پائیں گے اگر برائی کریں گے تو صرف اس کے برابر سزادی جائے گی۔ پارہ تیس کی سورۃ الزلزال میں فرمایا کہ انسان نے ذرہ بھر بھی نیکی کی تو قیامت کے دن اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پائے گا۔ اگر اس نے ذرہ برابر برائی کی تو اسے بھی دیکھ لے گا۔ یہاں نیکی یا بدی کے اجر کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ ہر حسنہ کا اجر اس کے دس گنا ہوگا۔ تاہم برائی کی سزا دوگنی یا دس گناہ نہیں بلکہ اسی کے برابر ہوگی۔ لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو دوگنا عذاب ہوگا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ان کو دوگناعذاب ہوگا۔ کیونکہ ان کا گناہ ایک کا دوگنا ہوگا۔ لہٰذا ہر کسی کو اس کے گناہ کے بدلے سزا ہوگی۔ البتہ احادیث کی روشنی سے ثابت ہوتا ہے کہ اخلاص اور آدمی کے حالات کے مطابق کی گئی نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہی نہیں بلکہ سات سو گنا سے بھی زیادہ دیں گے جس کی مفسرین نے اس طرح تشریح فرمائی ہے کہ کروڑ پتی آدمی کسی کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کے لیے یہ کوئی بھاری اور بڑا کام نہیں اور اگر فاقہ کش آدمی کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کی یہ نیکی بڑا مقام رکھتی ہے۔ کیونکہ خود بھوکا رہ کر دوسرے کا پیٹ بھرتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں دونوں کی نیکی کے اجر میں فرق ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اسباب نہیں اخلاص کی بنا پر فرق ہوگا۔ جتنا نیکی کرنے والے میں اخلاص اور للٰھیت ہوگی۔ اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا اس کے مقابلہ میں برائی کی سزا برائی کے برابر ہوگی اور کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُہَا بِیَمِینِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیہَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاک کمائی ہی قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہوئے پھر اسے بڑھائے گا اپنے بندے کے لیے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اللہ تعالیٰ نیکی کو پہاڑ کی مانند بنادے گا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () فِیمَا یَرْوِی عَنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَی سَبْعِ مائَۃِ ضِعْفٍ إِلَی أَضْعَافٍ کَثِیرَۃٍ وَّمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ سَیِّئَۃً وَّاحِدَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب من ہم بحسنۃ اوسیئۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں پھر ان کو واضح کردیا ہے جو کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے مگر عمل نہ کرسکے اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اس کی مکمل نیکی لکھ لیتا ہے اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا سے بڑھا دیتا ہے۔ جو کوئی برائی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے مکمل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ] ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ یَقُول اللّٰہُ إِذَا أَرَادَ عَبْدِی أَنْ یَّعْمَلَ سَیِّئَۃً فَلَا تَکْتُبُوہَا عَلَیْہِ حَتّٰی یَعْمَلَہَا فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوْہَا بِمِثْلِہَا وَإِنْ تَرَکَہَا مِنْ أَجْلِی فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَعْمَلَ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلٰی سَبْعِ مائَۃِ ضِعْفٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّه ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے۔ تم اس کو نہ لکھو یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرے اگر وہ عمل کرتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی لکھو اور اگر اسے میری وجہ سے چھوڑتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اور جب وہ کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ بھی کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اگر اسے عملی جامہ پہنائے تو اسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دو۔“ ﴿فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ [ الزلزال : 7۔8] جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ (بھی) اسے دیکھ لے گا۔ مسائل : 1۔ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم دس گنا ہوگا۔ 2۔ برائی کی سزا صرف اس کے برابر ہوگی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : نیکی کی جزا، برائی کی سزا : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7تا8) 2۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ:71) 3۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام :160) 4۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص :84) 5۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات :37) 6۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت کی جزا ہے۔ (الدھر :12) 7۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 8۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس :52) 9۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف :20) 10۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل :63)