سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرسکتے (١) اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا (٢) آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو (٣) تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 148 سے 150) ربط کلام : مشرک اور اللہ کے نافرمان لوگوں کے خود ساختہ بہانے۔ مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گناہ کو چھوڑنے کے بجائے اس کا جواز اور بہانہ تلاش کرتے ہیں۔ جس کے لیے یہ لوگ جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی رسومات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ عادت ہر دور کے مشرک اور نافرمانوں کی رہی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ حرام و حلال کے متعلق عقلی اور نقلی دلائل نہ رکھنے والے لوگ عنقریب یہ دلیل دیں گے کہ اگر واقعی اللہ تعالیٰ شرک اور حرام خوری کو ناپسند کرتا تو پھر ہم اور ہمارے آباؤ اجداد شرک کرنے اور کسی چیز کو حرام قرار دینے کی کس طرح جرأت کرسکتے تھے؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ قرآن مجید میں یہ بات کئی مقامات پر سمجھائی گئی ہے کہ کسی کو جبراً ہدایت کے راستے پر چلانا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے منافی ہے۔ اس لیے یہاں ایسے لوگوں کو تفصیلی جواب دینے کے بجائے فقط اتنا ہی جواب دینا مناسب سمجھا گیا ہے کہ اسی طرح کے بہانے بنا کر تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ اگر تمھارے پاس علم کی بنیاد پر کوئی دلیل ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ لیکن تمھاری حالت تو یہ ہے کہ تم محض اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہوئے بے بنیاد باتیں بنا تے ہو۔ یہ کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کرسکتے لہٰذا انھیں فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کی دلیل تمھیں پہنچ چکی ہے جو عقل و فکر اور ہر اعتبار سے کا مل اور اکمل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ جبراً چاہتاتو سب لوگوں کو ہدایت پر اکٹھا کرسکتا تھا لیکن ہدایت واضح کرنے کے بعد اس نے انسان کو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جبراً ہدایت قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ اب پھر اتمام حجت کے لیے انہی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تمھارے پاس علم کی کوئی سند نہیں تو تم ایسے گواہ پیش کرو۔ جو علمی اور فکری دلائل سے ثابت کریں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے تمھاری حرام کردہ چیزوں کو حرام کیا اور شرک کا کوئی جواز پیش کیا ہے۔ یہاں گواہوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق اور سچ کی گواہی دینے والے ہوں۔ ظاہر ہے جس طرح ان کے پاس شرک اور حرام خوری کے لیے علمی اور شرعی دلائل نہیں اسی طرح ایسے گواہوں کا ملنا مشکل ہے جو تورات اور انجیل سے ان کی حرام خوری اور شرک کا ثبوت پیش کرسکیں۔ اسی بنا پر فرمایا کہ اگر علم و عقل سے عاری لوگ شہادت دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو آپ (ﷺ) کو ان کے ساتھ ہرگز گواہی نہیں دینا چاہیے۔ اور ایسے لوگوں کے جذبات و خیالات کا ہرگز خیال نہیں کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب، آخرت کا انکار اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ شرک اور حرام خوری کا انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں بھی یہ کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ مسائل : 1۔ مشرک اور حرام خور، شرک اور حرام خوری کے لیے بہانے بناتے ہیں۔ 2۔ آدمی کو قرآن و سنت کے علم کے مقابلہ میں اپنے خیالات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت پر گامزن نہیں کرتا۔ 4۔ جھوٹے گواہ کی تائید نہیں کرنی چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا، آخرت کا انکار ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا پرلے درجے کے گناہ ہیں۔ تفسیر بالقرآن : گمراہ لوگوں کی پیروی سے اجتناب : 1۔ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار اور مذاق اڑاتے ہیں تم ان کے ساتھ مت بیٹھو۔ (النساء :140) 2۔ یہودی مسلمانوں کو اپنی طرح کافر بنا دینا چاہتے ہیں ان کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء :89) 3۔ آپ (ﷺ) کفارکی خواہشات کے پیچھے مت چلیں۔ (البقرۃ:145) 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کفار اور منافقین کی پیروی سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ (الاحزاب :1)