سورة الانعام - آیت 138

وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (١) اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی (٢) اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر (٣)۔ ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 138 سے 140) ربط کلام : مشرکوں کے شرک و رسومات کی مزید تفصیلات زمانۂ جاہلیت میں کفار اور مشرکین نے اپنے مویشیوں اور کھیتیوں کو چار اقسام میں تقسیم کر رکھا تھا۔ 1۔ غیر اللہ کے نام پر مخصوص کیے ہوئے مویشی اور کھیت جنہیں مجاورین کی اجازت کے بغیر کوئی استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ 2۔ جو جانور غیر اللہ اور آستانوں کے لیے وقف کیے جاتے ان پر سواری کرنا بھی ان کے ہاں جائز نہیں تھا۔ 3۔ غیر اللہ کے نام پر وقف کیے ہوئے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ 4۔ وقف کی ہوئی اونٹنی، گائے، بکری کا دودھ پینامردوں کے لیے جائز اور عورتوں کے لیے حرام تھا اسی طرح ان جانوروں سے جو بچہ پیدا ہوتا اس کا کھانا مردوں کے لیے حلال تھا۔ اگر بچہ مردہ ہوتا تو اس کے کھانے میں مرد و زن شریک ہوجاتے تھے۔ مالی عبادات میں مشرکوں کے شرک و رسومات کی تفصیل کے ضمن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ شرک میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ جو جانور غیر اللہ کے نام پر وقف کرتے انھیں ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا خود ساختہ شریعت کے خلاف سمجھتے تھے۔ اور غیر اللہ کے نام وقف کیے ہوئے جانور اور کھیتوں کو مجاورین کا اپنے نام مخصوص کرلینا، ایسے جانوروں پر سواری نہ کرنا، زندہ پیدا ہونے والے بچے پر مردوں کی ملکیت سمجھنا اگر مردہ پیدا ہو تو اس میں مرد و زن کی شرکت جائز قرار دینا، یہ ان کے من گھڑت دین کی نمایاں علامات تھیں۔ دراصل یہ دین کے نام پر مذہبی پیشواؤں کی مالی کرپشن تھی جس کے نام پر انھوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور مذہب کے نام پر عوام کا استحاصل کیا۔ جس کی مثالیں مسلمانوں سمیت ہر مذہب کے نام نہاد دینی رہنماؤں میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے پہلی آیت کے آخر میں انھیں وارننگ دی گئی کہ عنقریب انھیں اس مکر و فریب اور گھناؤنے دھندے کی سزا دی جائے گی، آیت : 138کے آخر میں فرمایا یہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لوگوں کے سامنے من گھڑت شریعت پیش کرتے ہیں انھیں اسی پر چھوڑ دیجیے۔ بہت جلد انھیں اس جرم کی سزا مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم اور کردار کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت کے تحت انھیں مہلت دے رکھی ہے۔ ان لوگوں کا بغیر کسی جواز کے محض حماقت کی بنا پر اپنی اولاد کو قتل کرنا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو اللہ ہی کے ذمہ لگا کر حرام قرار دینا انتہا درجے کی گمراہی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پایا کرتے۔ (عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ سُئِلَ عَلِیٌّ (رض) أَخَصَّکُمْ رَسُول اللّٰہِ () بِشَیْءٍ فَقَالَ مَا خَصَّنَا رَسُول اللّٰہِ () بِشَیْءٍ لَمْ یَعُمَّ بِہِ النَّاسَ کَافَّۃً إِلَّا مَا کَانَ فِی قِرَابِ سَیْفِی ہٰذَا قَالَ فَأَخْرَجَ صَحِیفَۃً مَکْتُوبٌ فیہَا لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الْأَرْضِ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَہٗ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ آوٰی مُحْدِثًا) [ رواہ مسلم : کتاب الأضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ] ” حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں حضرت علی (رض) سے پوچھا گیا کیا رسول معظم (ﷺ) نے آپ کو کسی بات کے ساتھ خاص کیا تھا حضرت علی (رض) نے فرمایا رسول معظم (ﷺ) نے مجھے عام لوگوں سے ہٹ کر کوئی خاص بات نہیں کہی مگر یہ میری تلوار کی میان میں جو ہے پھر انھوں نے میان میں سے کاغذ نکالا جس میں لکھا ہوا تھا اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر بھی لعنت کرے جو چوری کرتا ہے اور اللہ اس پر لعنت کرے جو اپنے والد کو لعن طعن کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص پر بھی لعنت کرے جو کسی بدعتی کو پناہ دیتا ہے۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ () إِذَا خَطَبَ۔۔ یقول أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَاب اللّٰہِ وَخَیْرُ الْہُدَی ہُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے تو کہا کرتے۔۔ اما بعد بلاشبہ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت کا راستہ محمد (ﷺ) کا ہے اور برے کاموں میں سے بدعات ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“ مسائل : 1۔ مشرکین جانوروں کے بارے میں من گھڑت باتیں منسوب کیا کرتے تھے۔ 2۔ حلال وحرام کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 3۔ اولاد کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے والے کبھی ہدایت نہیں پا سکتے۔ تفسیر بالقرآن : گمراہ لوگ : 1۔ نبی (ﷺ) کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران : 164، الجمعۃ :2) 2۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (الاحزاب :36) 3۔ بہت بڑا ظالم ہے وہ شخص جو اللہ پر جھوٹ باندھے بغیر علم کے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے۔ (الانعام :144) 4۔ کفار اللہ کے راستہ سے روکنے والے اور خوددور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء :167) 5۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور آخرت کے دن کا انکار کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء :136) 6۔ اللہ کے سوا غیروں کو پکارنے والے گمراہ ہیں۔ (الاحقاف :5)