وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : دنیا میں سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے شرک کے مرتکب جن اور انسان جس طرح قولی اور جسمانی عبادات میں گمراہ ہوتے ہیں اسی طرح مالی معاملات اور صدقہ کرنے میں شرک کرتے ہیں۔ اب مشرکوں کے مالی عبادات میں شرک کی نشاندہی اور اس کی مذمت کی جاتی ہے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ذکر کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ اپنی خود ساختہ تقسیم کے مطابق اپنے جانوروں میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتے تھے اور دوسرا حصہ معبودان باطل کے لیے۔ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ سب کچھ ان کی حرمت و طفیل اور صدقہ سے ملتا ہے۔ جو حصہ ان کے معبودوں کے نام کا ہوتا وہ پورے کا پورا ان کے نام پر بتوں کی آرائش و زیبائش کے لیے نذرانہ کیا جاتا، جسے بت خانہ کے متولی اپنی مرضی سے خرچ کرتے۔ جو حصہ اللہ تعالیٰ یعنی فی سبیل اللہ مقرر کرتے اسے غربا اور مساکین پر خرچ کرتے۔ معبودوں کے مقرر کیا ہوا حصہ میں اگر نقصان ہوجاتا تو یہ نقصان فی سبیل اللہ کے حصہ سے پورا کردیتے۔ اگر فی سبیل اللہ کے کھاتے میں کمی واقع ہوجاتی تو اس کو کم ہی رہنے دیتے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی، بے نیاز اور بڑے حوصلے والا ہے۔ اس کا حصہ کم بھی رہ جائے تو اسے کوئی پروا نہیں۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں اس لیے اگر ان کا حصہ پورا نہ کیا گیا تو وہ ناراض ہوجائیں گے جس کی وجہ سے ہمارا نقصان ہوسکتا ہے۔ تقسیم کا یہ اصول کسی شریعت سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ انھوں نے من ساختہ بنایا ہوا تھا جس کی بنا پر فرمایا ہے کہ بدترین ہے فیصلہ اور ان کی تقسیم جو وہ کرتے ہیں۔ غور فرمائیں کہ چودہ سو تیس سال پہلے کی رسومات اور شرک قریب قریب اسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ آج بھی مزارات پر دیے جانے والے نذرانوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر ہم نے پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کے نام گیا رہویں پیش نہ کی، فلاں مزار پر اتنا حصہ نہ دیاتو بزرگ ناراض ہو کر ہمارا نقصان کردیں گے اور مال سے برکت اٹھ جائے گی۔ مکہ کے مشرکوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مشکلات کے حل کا ذریعہ اور مشکل کشا سمجھتے تھے۔ یہی عقیدہ آج بے شمار کلمہ گو حضرات کا ہے۔ مزارات میں مدفون بزرگوں کو مشکلات کے حل کے لیے اللہ کے حضور واسطہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید بار بار وضاحت کرتا ہے۔ یہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) ہَلْ کَان فیہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ہَلْ کَان فیہَا عیدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ ابوداؤد : باب مایومر بہ من الوفاء بالنذر] ” حضرت ضحاک بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ’ بوانہ‘ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔ سرور عالم (ﷺ) نے دریافت فرمایا کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا ہوتی تھی؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ سرورِکائنات نے استفسار فرمایا بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کی کہ نہیں۔ حبیب کبریا (ﷺ) نے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہیے۔ اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اسے جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔“ مسائل : 1۔ غیر اللہ کے نام پر صدقہ یا نذرانہ کرنا شرک ہے۔ 2۔ اپنی مرضی سے حرام و حلال کا فیصلہ کرنا بدترین جرم ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں کو غیر اللہ کے نام منسوب کرنا حرام ہے۔ 4۔ مالی اور دیگر عبادات میں کسی کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی بنانا شرک ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے نام وقف کی ہوئی چیز کو غیر اللہ کے نام وقف کرنا بدترین گناہ ہے۔