سورة البقرة - آیت 84

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے (٢)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ عہد کا حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل سے اپنی بندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک، یتامٰی و مساکین کے ساتھ تعاون اور لوگوں سے خوش اخلاقی و خوش گفتاری کے ساتھ پیش آنے، نماز اور زکوٰۃ کا عہد لیا تھا۔ اسی طرح ان سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ آپس میں دنگا فساد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے صلح وآشتی کے ساتھ رہنا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف اس عہد کی مخالفت کی بلکہ قتل و غارت اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔ طاقت ور کمزور کے لیے وحشی درندے کی شکل اختیار کر گیا۔ ماضی میں جو کچھ فرعون ان کے ساتھ کیا کرتا تھا انہوں نے اس سے بڑھ کر اپنے لوگوں پر ظلم ڈھائے کہ کمزور طبقات کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ طاقتور قبائل اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو لڑایا کرتے اور پھر لوگوں کے سامنے سچا ہونے اور اپنے آپ کو مظلوموں کا خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے حقوق انسانیت کے علمبردار بن جاتے اور مغلوب قبیلے کے قیدیوں کو رہائی دلانے کے لیے فدیے کا بندوبست کرتے تاکہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ان کے ممنون رہیں۔ جس طرح امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے پہلے 2001 ء میں افغانستان اور عراق کے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا اور پھر انسانیت اور تعمیر نو کے نام پر اپنے مفاد کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور لوگوں کو خوراک اور ادویات مہیا کیں تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ ہم ظالم نہیں خیر خواہ اور انسان دوست لوگ ہیں۔ مسائل : 1۔ بنی اسرائیل سے کشت و خون نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ 2۔ بنی اسرائیل سے اپنے لوگوں کو دربدر نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔