وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ
اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔
فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : صرف حرام کھانا ہی نہیں چھوڑنا بلکہ خفیہ اور اعلانیہ گناہ بھی چھوڑ دینے چاہییں۔ اس سے پہلے حکم میں مجبور انسان کو حرام کھانے کی اجازت دی گئی تھی جس سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ حرام کھانے والا کس حد تک مجبور ہے۔ یعنی حالت کا صرف متعلقہ آدمی کو ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے واضح کردیا گیا کہ مومن وہ ہے جو پوشیدہ اور کھلے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا انتباہ فرمایا کہ جو لوگ خفیہ یا اعلانیہ گناہ کریں گے بہت جلد سزا سے دو چار ہوں گے۔ جلد سے مراد دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی شکل میں گرفت ہو سکتی ہے پھر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی نہایت مختصر ہے۔ اس لحاظ سے آخرت کی سزا بھی بہت جلد ملنے والی ہے اللہ سے ڈرنے والا شخص ہمیشہ آخرت کو قریب ہی سمجھا کرتا ہے۔ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے کہ موت انسان کی جوتی کے تسمے سے بھی قریب ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) الْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِکَ) [ رواہ البخاری : بابالْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا جنت اور دوزخ تم میں سے ہر کسی کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دینے کے حکم کے ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ یہ بھی گناہ ہے کہ تم وہ جانور کھاؤ جس کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ایسے جانور کا گوشت کھانا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کرنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کے بجائے کسی غیر کا نام لے کر یا بظاہر تو اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا رہا ہو لیکن ذبح کسی مزار، بت یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر کیا گیا ہو۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ کسی فوت شدہ کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے ذبح کرنا بھی تو غیر اللہ ہی کے لیے ہوگا۔ یہی وہ مغالطے ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والے ہمیشہ سے مسلمانوں کو دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ اسی لیے غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز دینے اور ذبح کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شیطان اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ذہن میں ایسی ایسی باتیں اور دلیلیں ڈالتا ہے جس سے وہ موحدوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ لہٰذا موحدین کا فرض ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہ کھائیں اور نہ استعمال کریں اور نہ ہی ایسے دلائل سے دھوکا کھائیں۔ اگر کوئی غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ مشرکوں کے زمرہ میں سمجھا جائے گا۔ اس مقام پر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو روا داری میں ایسی چیزیں ہڑپ کر جاتے ہیں یا غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز وصول کرلیتے ہیں حالانکہ اس کا لینا بھی حرام ہے بے شک وہ چیز باہر پھینک دی جائے یا کسی جانور کو کھلا دی جائے اس کا وصول کرنا کسی نہ کسی درجے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ مسائل : 1۔ کھلے اور پوشیدہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔ 2۔ نیکی ہو اور برائی کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ 3۔ غیر اللہ کے نام پردی ہوئی چیز کھانا حرام ہے۔ 4۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کو مومنین کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ 5۔ اللہ کے طریقہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا گمراہی ہے۔ تفسیر بالقرآن : ہر قسم کے گناہ چھوڑ دینے کا حکم : 1۔ آپ (ﷺ) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہر و باطن کی بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کردیا ہے۔ (الاعراف :33) 2۔ درویش اور علماء لوگوں کو گناہ کی باتوں سے منع کیوں نہیں کرتے۔ (المائدۃ:63) 3۔ اللہ کے بندے کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (الشوریٰ :37) 4۔ بے شک نیک لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (النجم :32)