قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے کیا ہم الٹے پھرجائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کردی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بے راہ کردیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے ساتھی بھی ہوں کہ ہمارے پاس آ (١)۔ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے (٢) اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے مطیع ہوجائیں۔
فہم القرآن : (آیت 71 سے 73) ربط کلام : جس طرح معبودان باطل آخرت میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے اسی طرح یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر دنیا میں بھی یہ کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرک کی عادات میں ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے معبودوں کے ساتھ محبت کرتا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے بجائے اپنے باطل معبودوں کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے۔ حالانکہ معبودان باطل نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان۔ اسی بنا پر نبی مکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ مشرکوں کو سمجھائیں کہ کیا ہم ان کی طرف دعوت دیں اور ان کی عبادت کریں جو کسی کو ذرّہ برابر نفع اور رتی برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرکوں سے یہ بھی کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو شرک کی دعوت دیں۔ توحید کا عقیدہ اپنانے کے بعد شرک کی دعوت دینا الٹے پاؤں چلنے کے مترادف ہے۔ ظاہر بات ہے الٹے پاؤں چلنا عقل و فکر کے خلاف اور حقیقت سے منہ موڑنا ہے یہ تو اس شخص کا وطیرہ ہے جس کو شیطان نے کسی صحرا اور بیابان میں بہکا دیا ہو۔ وہ حیرانی اور پریشانی کے سوا کوئی راستہ نہیں پاتا۔ اور ادھر ادھر بہکا پھر رہا ہے۔ یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ و عمل کی دنیا میں صحیح فکر اختیار کرنے کے بجائے فکری اور عملی آوارگی کا شکار رہتا ہے۔ اسے توحید کی دعوت سمجھ نہیں آتی اور اس کی حالت صحرا میں بہکے ہوئے مسافر کی ہے۔ جسے صحیح راستے کی طرف بلایا جائے تو وہ اس قدر حواس باختہ ہوچکا ہوتا ہے اسے کوئی بات سنائی اور سمجھائی نہیں دیتی۔ ایسے شخص سے بحث مباحثہ کرنے کے بجائے اسے کہنا چاہیے کہ ہدایت تو اللہ کی طرف سے نصیب ہوا کرتی ہے اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم غیر اللہ کی پیروی کرنے کی بجائے صرف اور صرف رب العالمین کی غلامی اور اس کے حکم کی پیروی کریں۔ اس کا حکم اور اس کی اتباع یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا جائے کیونکہ اسی کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ جس دن وہ ” کُنْ“ فرمائے گا تو سب کچھ اس کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ اس کا حکم صادر ہونے اور ہر چیز کا اس کے حضور اکٹھا ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی کی زمین و آسمان پر بادشاہی ہے اسی کے حکم سے پہلا اور دوسرا صور پھونکا جائے گا وہ ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَا الصُّورُ قَالَ قَرْنٌ یُنْفَخُ فیہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصفۃ القیامہ، باب ماجاء فی شان الصور] ” حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص (رض) بیان کرتے ہیں ایک دیہاتی نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضرہو کر پوچھا کہ صور کیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) کَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتٰی یُؤْمَرُ بالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ فَکَأَنَّ ذَلِکَ ثَقُلَ عَلٰی أَصْحَاب النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ لَہُمْ قُولُوا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤں؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (ﷺ) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (ﷺ) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی نفع و نقصان نہیں دے سکتا۔ 2۔ گمراہی پر اصرار کرنا شیطان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ 3۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی سب کو اکٹھا کیا جائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان حق اور سچ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ بہت حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے : 1۔ خاص مجھ ہی سے ڈر۔ (البقرۃ:41) 2۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق :10) 3۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) 4۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ ( الاحزاب :70) 5۔ اے لوگو ! اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ ( النساء :1) 6۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ( الحجرات :10)