قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے (١) یا تو تمہارے پاؤں تلے سے (٢) یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے (٣) آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جائیں۔
فہم القرآن : (آیت 65 سے 67) ربط کلام : سمندر کے طوفان اور صحرا کے گرداب اور بھنور میں ہی نہیں وہ اللہ جب چاہے انسان کو دیگر آزمائشوں اور عذابوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اے لوگو تم ہر حال میں اپنے رب کے سامنے مجبور محض ہو۔ پہلی آیات میں برّی گرداب اور سمندری طوفانوں کا ذکر ہوا ہے۔ جن کے ساتھ عام طور پر مسافر کو واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے کہ لازم نہیں کہ صرف سفر میں ہی تمھیں مشکلات اور عذاب کے ساتھ واسطہ پڑے۔ وہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تمھیں تمھارے گھروں میں بیٹھے ہوئے آسمانی اور زمینی عذاب سے دو چار کردے، یہی نہیں بلکہ تمھیں تمھاری نافرمانی، بداخلاقی اور باہمی منافقت ور نجشوں کی بنا پر آپس میں اس طرح الجھا دے کہ تم ایک دوسرے کے لیے عذاب اور مصیبت بن جاؤ۔ آسمانی عذاب سے مراد بارشوں کا بے موقع اور غیر معمولی برسنا ہے۔ دیگر آفات کا لوگوں کے پاؤں تلے سے نمودار ہونا ہے۔ پاؤں تلے نمودار ہونے کی مثال قوم نوح کے عذاب کی طرح پانی کا آسمان سے اترنا اور زمین سے نکلنا اور اگلنا ہے۔ لوگوں کا زمین کے اندر دھنسائے جانا اور اس طرح کے دیگر عذاب ہیں اس مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے کو عذاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ باہمی جنگ و جدال کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب قرار دیا اور فرمایا کہ غور کرو کہ ہم اپنے احکام کو مختلف زاویوں کے ساتھ کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھ بوجھ سے کام لیں۔ انسانی اعضاء و جوارح اور وجود میں سمجھ بوجھ ہی وہ قوت ہے۔ جو انسان کو دینی اور دنیاوی نفع و نقصان سے باخبر رکھتی ہے اگر سوجھ بوجھ کی صلاحیت سلب ہوجائے تو آدمی کا صحیح راستے پر چلنا، نفع اور نقصان کو پہچاننا ناممکن ہوجاتا ہے۔ نبی معظم (ﷺ) کے بار بار سمجھانے کے باوجود کفار ہر بار حقائق کی تکذیب کرتے۔ جس پر رسول محترم (ﷺ) کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا کام لوگوں کو سمجھانا اور بتلانا ہے منوانا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں پر چوکیدار بنانے کے بجائے مبلغ بنایا ہے۔ جہاں تک عذاب یا قیامت لانے کا مطالبہ ہے انھیں خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بات اور کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اس کا حکم اور کام اپنے وقت پر ہی ظہور پذیر ہوا کرتا ہے۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ لَہٗ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اِسْتَنْصِتِ النَّاسَ فَقَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب الانصات للعلماء] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (ﷺ) نے اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ۔ اس کے بعد فرمایا میرے بعد کفر میں لوٹ نہ جاناکہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا عذاب نازل کرسکتا ہے۔ 2۔ ہر نبی کا کام دعوت حق پہنچانا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ حق بات دلائل و شواہد سے واضح کرتا ہے تاکہ لوگ شرک و مصیبت سے باز آجائیں۔ 4۔ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ تفسیر بالقرآن : باہمی اختلاف اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے : 1۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ (المائدۃ: 91) 2۔ باہمی اختلاف انسان کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کردیتا ہے۔ (آل عمران :103) 3۔ اختلاف سے ساکھ اکھڑ جاتی ہے۔ (الانفال :46) 4۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان قیامت تک کے لیے باہم اختلافات رہیں گے۔ ( المائدۃ:64) 5۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے درمیان بغض اور دشمنی قیامت تک کے لیے ڈال دی ہے۔ (المائدۃ:14)