سورة الانعام - آیت 61

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 61 سے 62) ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح نیند اور بیداری پر اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح ہی انسان کی موت کے بعد اسے زندہ کرکے اپنی بارگاہ میں حاضر کرنے پر قوت و اختیار رکھتا ہے۔ وہ بندوں پر مکمل اختیار رکھنے کے با وجود ہدایت کے بارے میں جبر اختیار نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، قدرت، علم، حکمت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر قادر اور قاہر ہے۔ وہی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ایک مدت معینہ کے بعد اس کے وجود کو ناپید کردیتا ہے۔ پھر قیامت کے دن ہر چیز کو وجود میں لائے گا۔ وہ ظلمت پر روشنی کو اور روشنی پر ظلمت کو غالب کرتا ہے۔ وہی ہر نعمت دینے والا ہے۔ اور جب چاہتا ہے اسے واپس لے لیتا ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے اقتدار اور اختیار، قدرت و سطوت کے سامنے دم مار سکے۔ وہ ہر وقت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر غالب اور قادر ہے۔ وہی بندوں کے اجسام اور اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس نے انسان کی جان اور اعمال محفوظ رکھنے کے لیے ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں۔ جو آدمی کی آخروقت تک حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ اپنے عملے کے ساتھ آدمی کی جان اچک لیتا ہے۔ پھر وہ اسے پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا تے ہیں۔ جو انسان کا حقیقی مالک ہے۔ یہاں ﴿مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ﴾کا لفظ استعمال فرما کر یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ دنیا میں کافر اور مشرک بے شمار جھوٹے مولیٰ بنائے پھرتے ہیں جو آدمی کی موت کے ساتھ ہی اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے حقیقی مولیٰ اور حاکم مطلق اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے انسان کی انسانیت یہ ہے کہ وہ اللہ کو سچا مولیٰ اور حاکم مطلق تصور کرے جو بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ () قَالَ یَتَعَاقَبُون فیکُمْ مَلَائِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَائِکَۃٌ بالنَّہَارِ وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فیکُمْ فَیَسْأَلُہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِی فَیَقُولُونَ تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں پھر آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں جب ہم ان کے پاس سے آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے ہاں گئے تو بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر بندے پر حفظ وضبط کے لیے فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں۔ 2۔ وقت مقررہ سے فرشتے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہونے دیتے۔ 3۔ اللہ ہی مالک حقیقی ہے۔ 4۔ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : موت کے وقت مہلت نہیں دی جاتی : 1۔ ہر امت کے لیے ایک اجل ہے جب آجائے تو ایک منٹ آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (یونس :49) 2۔ جب لوگوں کی اجل آجائے تو ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (النحل :61) 3۔ اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی اجل آجائے۔ (المنافقون : 10تا11)